کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 55
کہ اس کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے۔ اس نے پوچھا: کیا انصاف میرے ہی ساتھ مخصوص ہے یا میری قوم بھی اس میں شریک ہے ؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں اپنے علاوہ دوسروں سے کیا مطلب ؟ اس نے کہا: ’’انصاف ہو تو سب کے ساتھ ہو ورنہ یہ بہت ہی مذموم بات ہو گی کہ ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے اور دوسروں پر ظلم روا رکھا جائے۔ اگر آپ میرے کل قبیلہ کے ساتھ عدل نہیں کر سکتے تو مجھے بھی انصاف کی کوئی ضرورت نہیں ، میری قوم جس خستہ حالت میں پڑی ہوئی ہے میں بھی پڑی رہوں گی۔‘‘ حضر ت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن ابی طالب نے تم کو جری بنا دیا ہے۔ پھر ماتحتوں کو حکم دیا کہ گورنر کو لکھ دو کہ اس کے مطالبات پورے کیے جائیں۔[1] 5.اسی طرح عکرشہ بنت اَطرش بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار میں ان کے گورنروں کی شکایت لے کر پہنچی اوربے باکانہ کہا کہ ’’ اس سے پہلے ہمارے اغنیا سے زکوۃ لی جاتی اور ہمارے غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی، لیکن اب نہ تو شکستہ حال کی شکستگی دور ہوتی ہے اور نہ محتاج کی محتاجی رفع کی جاتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ آپ کی ایماء اور مشورے سے ہو رہا ہے تو آپ جیسے شخص سے ( توقع یہ کی جاتی ہے کہ ) تنبیہ ہوتے ہی فوراً چونک اُٹھیں گے اور توبہ کرینگے اور اگر اس میں آپ کی رائے اور مشورہ کو دخل نہیں ہے بلکہ گورنروں کی اپنی طرف سے ظلم و زیادتی ہے ( تو یہ بھی آپ جیسی ذمہ دار شخصیت کے منافی ہے کہ ) وہ امانت داروں کوچھوڑ کر خائنوں سے تعاون حاصل کرے اور ظالموں کو خدمات پر مامور کر دے۔‘‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے معذرت کی کہ کبھی کبھی ایسے خراب حالات سے ہم کو سابقہ پڑتا ہے کہ قانون پر عمل کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! آپ کیسی بات کر رہے ہیں ۔ اس دانائے غیب نے ہم پر کوئی ایسا فرض متعین ہی نہیں کیا ہے جس پر عمل سے دوسروں کو نقصان ہو۔ بالآ خر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس قبیلہ کی زکوۃ کو اسی کے افراد کے اندر تقسیم کرنے اور اس کے ساتھ عدل و انصاف کیے جانے کا فرمان جاری کیا۔‘‘[2] اس جرأت و ہمت کو دیکھئے کہ کس طرح دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے بے خوف ہو کر
[1] العقد الفرید: ۱/۲۱۱۔۲۱۲ [2] ایضاً ص ۲۱۶