کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 54
آپ کے غلبہ و اقتدار کو مستقل اور وسیع کرنے کے ساتھ ہم کو کھیتی کی طرح کاٹ پھینکتے اور گائیوں کی طرح روند ڈالتے ہیں ۔یہ ہمارے حقوق کو ٹھیک سے اَدا نہیں کرتے۔ہم کو خراب سے خراب ترچیز چکھاتے ہیں اور بڑی سے بڑی اور نفیس سے نفیس شے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یہ دیکھیے، ابن اَرطاۃ حاکم بن کر آیا تو اس نے ہمارے قبیلہ کے افراد کا خون بہانا شروع کر دیا اور میرا مال چھین لیا۔ آپ کی اطاعت ہم پر فرض ہے ورنہ ہمارے اندراتنا کس بل اور بچاؤ کی قوت ہے کہ ہر ظلم کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ اگر آپ اس کو معزول کر دیں تو ہم آپ کے مشکور ہوں گے ورنہ ہم آپ کو بھی دیکھیں گے۔‘‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تو مجھے اپنی قوم کے ذریعہ دھمکی دے رہی ہے؟ ’’قسم خدا کی میں نے تو ارادہ کیا ہے کہ تجھ کو کانٹوں بھری سواری پر بٹھا کر اسی کے پاس لوٹاؤں تاکہ وہ اپنا فیصلہ تجھ پر نافذ کرے۔ ‘‘ اس پر سودہ خاموش ہو گئیں ۔ پھر کچھ دیر بعد دو شعر پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ اس روح پر رحمت نازل فرمائے جس کو ایک قبر نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے اور جس کے ساتھ عدل و انصاف بھی دفن ہو چکا ہے۔ اس نے حق کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ اس کے عو ض دولت دنیا میں حاصل کرے گا، اس طرح حق اور ایمان اس میں جمع ہو گئے۔‘‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کون؟ علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھ پر اس عدل و انصاف کا کوئی نشان نظر نہیں آتا؟ اس نے جواب دیا: میں یہ بلا دلیل نہیں کہہ رہی ہوں ۔ میرے پاس ان کے انصاف کا ثبوت موجود ہے۔ ایک دن میں نے ان کی خدمت میں ان کے ایک محصل صدقات کی شکایت لے کر پہنچی۔ وہ اس وقت کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو محبت بھرے انداز میں پو چھا: کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ میں نے محصل کی زیادتی بیان کی تو رونے لگے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا: ’’اے میرے اللہ!تو جانتا ہے، میں نے اپنے گورنروں کو تیری مخلوق پر ظلم و ستم ڈھانے اور تیرے حقوق کو چھوڑ بیٹھنے کا حکم نہیں دیا۔‘‘ اس کے بعد فوراً جیب سے چمڑے کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس پر اس کی معزولی کا حکم لکھ بھیجا۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر روانہ رکھی (لہٰذا آپ کی حکومت کو بھی ایسے ہی عدل پر ور ہونا چاہیے کہ کسی بھی شخص پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا