کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 52
کوئی علم نہیں ہوتا اسی طرح زیاد کے سلسلۂ پدری کا بھی کوئی پتہ نہیں تھا اور وہ نامعلوم النسب ہی مشہور تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک شخص نے شہادت دی کہ ایک مرتبہ جاہلیت میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی سُمیّہ کے ساتھ خلوت ہو گئی تو اس کے نتیجہ میں یہ پیدا ہوا۔ اس شہادت کی بنا پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی اولاد اور اپنا بھائی قرار دے لیا۔ زیاد اس سے بہت خوش ہوا وہ چاہ رہا تھا کہ اکابر اُمت سے بھی اس کی تصدیق ہو جائے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس نے ایک خط لکھا جس کا سرنامہ یہ تھا:’’ ابوسفیان کے لڑکے زیاد کی جانب سے اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس غیر اسلامی فعل کی کیسے تائید کر سکتی تھیں ۔ انہوں نے نہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کا کوئی احترام کیا اور نہ زیاد جیسے سخت گیر اور جور پیشہ گورنر کی کوئی پرواہ کی اور جواب کا آغاز ان کلمات سے کیا ’’امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے نا معلوم باپ کے لڑکے زیاد کے نام‘‘[1] اَعیانِ حکومت کو نصیحت اور اس کے نتائج تنقید یاتائید اسی وقت سود مند ہوتی ہے جب کہ اس کے پیچھے خلوص اور خیر خواہی کے جذبات کار فرما ہوں ، ورنہ نہ تو تائید کا کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ تردید کا۔ مسلمان خواتین نے جو کچھ کہا اور کیا، ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر خالص دین اور ملت کے مفاد کی لئے کہا اور کیا۔ دین کے نفع و ضرر کا پاس و لحاظ، اس کے لیے ہر طرح کی قربانی اور شدید ترین و جاں گسل مواقع پر استقامت؛ خاتونِ مسلم کی یہ ایسی صفات تھیں جنھوں نے اس کے خلوص اور وفاداری کو ہر شک و شبہ سے بالاتر کر دیا اور کوئی بھی شخص اس کو دین اور اَربابِ دین کی بدخواہ اور غدار نہیں ثابت کرسکا۔اُس نے فرد اور جماعت کے مفاد کے لئے جو بھی اقدام کیا اس کو ذاتی غرض اور نفسانی خواہش پر محمول نہیں کیا گیا بلکہ مخلصانہ جدوجہد سمجھ کر اس کاخیر مقدم کیا گیا۔عام اَفراد تو کیا،ذمہ دارانِ ریاست تک نے اس کی تنقید اور نصیحت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا اور اس سے استفادہ کیا ہے۔ 1.سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کولکھا کہ مجھے ایک مختصر سی نصیحت کیجئے(جسے میں ہمیشہ
[1] طبقات ابن سعد:۱/۷۱