کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 51
والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے اپنی بے بسی کا تذکرہ کیا کہ اور تو اور میری اولاد تک نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔اب میرے ساتھ گنے چنے افراد رہ گئے ہیں جو حجاج کے مقابلہ میں دیر تک ٹھہر نہیں سکتے۔ اگر میں اب بھی حجاج کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں تو دنیا کی جو نعمت چاہوں مل سکتی ہے بتائیے آپ کی کیا رائے ہے؟ ماں نے جواب دیا: ’’اے میرے بیٹے!تو اپنی نیت خوب جانتاہے، اگر تو سمجھتا ہے کہ تو حق پر ہے اور حق کی طرف بلانے والا ہے تو اس پر صبر کر،تمہارے اَصحاب کو قتل کر دیا گیااور تمہاری گردن بھی نہ بچ سکے گی۔بنی اُمیہ کے لڑکے اس سے کھیلیں گے اور اگر توجانتا ہے کہ توحق پر نہیں ہے صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے توتوبہت برا بندہ ہے تو نے اپنے آپ کو ہلاک کر دیااور اپنے اصحاب کو بھی جو تیرے ساتھ قتل ہوں گے اور اگر تو حق پر ہے تو دین کو ہلکا نہ جان تو دنیا میں کتنی دیر زندہ رہے گا؟‘‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ماں کے جذبات کی تائید کی اور حجاج کی مخالفت میں شہید ہو گئے۔[1] اظہارِ حق خواتین نے اپنوں ہی کو حق پر ثابت قدم رکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ معاشرہ میں جہاں کہیں ان کو بگاڑ نظر آیا، اس کو بدلنے اور اس کی جگہ خیر و صلاح کو قائم کرنے کی جدو جہد کرتی رہی ہیں ۔ 1.سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو سولی دینے کے بعد حجاج ان کی والد ہ اسماء کے پاس گیا اور کہا: آپ کے صاحبزادے نے خدا کے گھرمیں بے دینی اور الحاد پھیلایا جس کی سزا خدا نے اس کو درد ناک عذاب کی شکل میں چکھائی ہے۔ حضرت اسماء نے کہا : ’’ تو جھوٹ بولتا ہے وہ تو اپنے والدین کا فرمانبردار تھا ،روزے رکھنے والا اور قیام کرنے والا تھا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ثقیف قبیلے سے دو جھوٹے نکلیں گے دوسرا پہلے سے زیادہ شروالا ہو گا۔‘‘ [2] 2.سُمَیہ نامی ایک کنیز تھی جس سے دورِ جاہلیت میں اس کے آقا بیسوائی کراتے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ظالم گورنر زیاد اس کا لڑکا تھا۔ عموماً جیسے بیسواؤں کی اولاد کے حسب و نسب کا
[1] البدایہ والنھایہ:۸/۳۳۰ [2] مسند احمد:۶/۳۵۱