کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 50
ابو سفیان کی بیوی ہندبنت عتبہ نے شہدائے اُحد کے خلاف اشعار کہے تو ہندبنت اَثاثہؓ نے ان کا شعر ہی میں ترکی بہ تر کی جواب دیا۔[1] 3.حضرت خنساء رضی اللہ عنہا اپنے بچوں کے ساتھ جنگ ِقادسیہ میں شریک ہوئی تھیں ۔ان چاروں کو آغازِ شب ہی میں جمع کر کے کہا :اے میرے بچو!تم نے برضاور غبت ایمان قبول کیا اور کسی کے دباؤ کے بغیر ہجرت کی۔ بخدا،جس طرح تمہاری ماں ایک ہے، اسی طرح تمہارا باپ بھی ایک ہے،کیونکہ تمہاری ماں نے نہ تو تمہارے باپ کے ساتھ کوئی خیانت کی نہ تمہارے ننہال کو رسواکیا، نہ تمہارے حسب کو بٹہ لگایا اور نہ تمہارے نسب کو غبار آلود کیا(یعنی شریف اور باعفت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ہو۔اس لیے تمہارے اعمال بھی شریفوں کے سے اور ارفع واعلیٰ ہونے چاہئیں )تمہیں معلوم ہے کہ خدا نے کفا رسے جنگ کے عوض کس قدر ثواب تیار کر رکھا ہے ۔خوب سمجھ لو !اس فنا ہونے والی دنیا سے دارالبقا بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصْبِرُوْ ا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ’’اے ایمان والو! ثابت قدم رہو اور ثابت قدمی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو۔حق کی راہ میں جمے رہو اور اللہ سے ڈرو شاید تم فلاح پاؤ۔‘‘ (آل عمران:۲۰۰) اگر اللہ نے چاہا اور تم نے سلا متی سے صبح کی توپوری بصیرت کے ساتھ اور خدائے تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے دشمن کے مقابلے میں نکل جاؤ اور جب گھمسان کا رَن پڑے اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں تو تم اس کی بھٹی میں (بلا خوف وخطر ) کود پڑو۔جس وقت دشمن کا لشکر پورے جوش اور جذبہ سے لڑائی میں مصروف ہو تو تمہارے حملوں کا نشانہ اس کا سردار رہے اس طرح تم غنیمت او رجنت میں شرف و مرتبہ کے مستحق ہو کر لوٹو گے ۔ ماں کی زبان سے یہ پر عزیمت تقریر سن کر چاروں لڑکے رجزپڑھتے ہوئے سر بکف عر صۂ پیکا ر میں آنکلے، پھر ان کو خاک وخون میں غلطاں ہی دیکھا جا سکا۔ 4.جس زمانے میں حجا ج نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر رکھا تھا،ان کے تقریباًدس ہزار ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حجاج کے ساتھ جاملے یہاں تک کہ ان کے دو لڑکے حمزہ اور خبیب بھی پناہ کے طالب ہو کر حجاج کے پاس چلے گئے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے جاکر اپنی
[1] سیرۃ ابن ہشام:۳/۴۱،۴۲