کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 49
سکیں ۔ [1] دین کی مدافعت اور اس کی ترغیب دین کی مدافعت، خواتین جس طرح شمشیر و سنان کے ذریعہ کرتی رہی ہیں ، اسی طرح زبان وبیان سے بھی اُنہوں نے فریضہ انجام دیا ہے۔ حق کی نصرت و حمایت میں نیزہ اور تلوار بھی بلند کیا ہے اور زبان کی قوت بھی صرف کی ہے۔ ان کی پرجوش خطابت و تقریر نے بہت سوں کے لیے اللہ کی راہ میں مرنا اور جینا اور اپنی متاعِ حیات کا لٹانا آسان بنا دیا۔ 1.رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اَرویٰ بنت عبدالمطلب کے متعلق ابن عبد البر نے لکھا ہے: ’’وہ اپنی زبان سے نبی کا دفاع کرتیں اور اپنے بیٹے کو نبی کی مدد اور حکم پر اُبھارا کرتی تھیں ۔‘‘[2] ان کے لڑکے طلیب رضی اللہ عنہ مکہ کے ابتدائی دَور ہی میں ایمان لاچکے تھے۔ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کے ساتھ جن میں طلیب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ،نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل،ابو لہب، عقبہ اور بعض دوسرے سردار اچانک ہلّہ بول بیٹھے اور زبان درازی شروع کر دی ۔صحابہ رضی اللہ عنہم بھی پورے زور سے اظہارِ ایمان اور اپنی مدافعت کرنے لگے ۔طلیب رضی اللہ عنہ نے تو آگے بڑ ھ کر ابو جہل کو بری طرح زخمی کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین نے اُن کو پکڑ کر باندھ دیا ۔بعض لوگ یہ خبر لے کر اَرویؓبنت عبدالمطلب کے پاس پہنچے اور کہا: ذرا اپنے بیٹے کی ’حماقت ‘تو دیکھو کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے پھیر میں آکر لوگوں کے جو روستم کا نشانہ بن گیا ہے ۔ اُنہوں نے جواب دیا : ’’خیر أیام طلیب یوم یدب عن ابن خالہ وقد جاء بالحق من عند اﷲ‘‘[3] ’’وہ دن کہ جن میں طلیب نے اپنے ماموں زاد کی حمایت کی تھی بہترین دن ہیں ،یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر آیا۔‘‘ 2.عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اُحد کے دن زخمی ہو گئے تو ان کی والدہ اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا نے مرہم پٹی کی اور بجائے اسکے کہ اپنے لختِ جگر کو تکلیف میں دیکھ کر آرام لینے اور سستانے کا مشورہ دیتیں حکم دیا : ’’انہض بني فضارب القوم‘‘[4] ’’میرے بیٹے اُٹھو اور دشمن کو مارو۔‘‘
[1] طبقات ابن سعد:۸/۲۱۳ [نوٹ: شرعی استدلال سے قبل تمام روایات کی فنی حیثیت کی جانچ ضروری ہے] [2] الاستیعاب فی اسماء الاصحاب تذکرہ ارویٰ بنت عبدالمطلب [3] مستدرک حاکم: ۴/۵۲ [4] طبقات ابن سعد:۸/۳۰۲