کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 48
16.حشربن زیاد کی دادی اور پانچ عورتیں بھی اس جنگ میں گئی تھیں ۔ اُنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آنے کا مقصد ان الفاظ میں ظاہر کیا: ’’یا رسول ﷲ! خرجنا نغزل شعر ونعین بہ في سبیل اﷲ ومعنا دواء للجرحی ونناول السہام ونسقی السویق‘‘[1] ’’ اللہ کے رسول! ہم بالوں کو بٹتی ہیں اور ا س کے ذریعے اللہ کے رستے میں تعاون کرتی ہیں ۔ ہمارے ہمراہ زخمیوں کے لیے دوا ہوتی ہے، ہم تیر پکڑاتی اور ستو پلاتی ہیں ۔‘‘ 17.خیبر ہی میں ابو رافع ؓکی بیوی، سلمہ رضی اللہ عنہا قبیلہ اَشہل کی ایک خاتون اُمّ عامر، ایک انصاری عورت اُمّ خَلا[2] اور کعیبہ بنت ِسعد کی شرکت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔[3] 18.اس سے اہم تر بات یہ ہے کہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت یہ خدمات انجام نہیں دیتی تھیں بلکہ محافظین دین کی رفاقت اور تعاون کو اپنے لیے باعث ِ عزت سمجھ کر خود ہی پیش کش کرتی تھیں ۔ اسی جنگ ِ خیبر کا واقعہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہونے لگے تو قبیلہ غفار کی چند عورتوں نے آکر عرض کیا: ’’ إنا نرید یا رسول ﷲ أن نخرج معک إلیٰ وجہک ہٰذا فنداوی لجرحی ونعین المسلمین بما استطعنا ‘‘[4] ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس مبارک سفرمیں جس پر آپ جا رہے ہیں ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنا چاہتی ہیں تاکہ زخمیوں کا علاج کریں اور اپنے بس بھر مسلمانوں کی مدد کریں ۔‘‘ 19.بعض خواتین میدان جنگ سے باہر بھی یہ خدمات انجام دیتی تھیں ۔ مثلاً رفیدہ نامی قبیلہ اسلم کی عورت کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے : ’’وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی اور اُنہوں نے مسلمانوں کے زخمیوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا۔‘‘ چنانچہ مسجد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کا خیمہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنگ خندق میں زخمی ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رفیدہ ہی کے خیمہ میں منتقل کر دیا تھا تا کہ آپ بآ سانی ان کی عیادت کر
[1] سنن ابودائود:۲۷۲۹ [2] طبقات ابن سعد:۸/۳۳۶ [3] ایضاًص۲۱۳ [4] سیرۃ ابن ہشام:۳/۲۹۵