کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 44
جنگی خدمات شریعت نے ریاست کے دفاع اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی، لیکن اس کے باوجوداللہ کے دین کو سر بلند دیکھنے کی تمنا اس کو دشمن کے خلاف محاذِ جنگ پر لے آتی اور مردوں کے ساتھ وہ بھی کفر کا علم سر نگوں کرنے میں حصہ لیتی رہی: 1.ایک انصاری صحابیہ اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا نے جنگ ِاُحد میں مردوں کی سی ثابت قدمی اور دلیری کا مظاہرکیا۔سعد بن ربیع کی صاحبزادی اُمّ سعد رضی اللہ عنہا نے اس کارنامہ کے متعلق دریافت کیا توتفصیل سے بتایا کہ میں صبح سویرے ہی مجاہدین کی خدمت کے لیے میدانِ کارزار میں پہنچ گئی تھی۔ ابتدا میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا، لیکن بعد میں جب فتح و نصرت نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیاتواُن میں افراتفری اورانتشار پھیل گیا۔اِس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت میں تیر اور تلوار چلانے لگی۔یہاں تک کہ دشمن کی ضر ب مجھ پر آن پڑی۔ اُمّ سعد کہتی ہیں کہ میں نے ان کے کندھے پر بہت ہی گہرے زخم کا نشان دیکھا اور پوچھا، کس نے آپ پر اتنا سخت حملہ کیا تھا؟ اُنہوں نے جواب دیا،ابن قمہ نے! اللہ اسے غارت کرے! جب مسلمان شکست کھا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ چلاتا ہوا آیا: بتاؤ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہے؟ اگر وہ اس جنگ میں بچ گیا تو میری نجات نہیں ۔یہ میری ہلاکت اور موت ہے۔ یہ سن کر میں اور مصعب بن عمیر ؓ اور چند دوسرے اَصحاب نے جو آپ کے ساتھ جمے ہوئے تھے، اس کا سامنا کیا۔اس مقابلہ میں اُس نے مجھ پر یہ وار کیا جس کا نشان تم دیکھ رہی ہو۔ میں نے بھی تلوار سے کئی ایک حملے کیے، لیکن دشمنِ خدا دو دو زرہیں پہنے ہوئے تھا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت میں اُنہوں نے جس ہمت اور پامردی کا ثبوت دیا اس کی شہادت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دی ہے: ((ما التفتُ یمینًا ولا شمالاً إلا وأنا أراہا تُقابل دوني[1] ’’دائیں بائیں جس طرف بھی میں نے رُخ کیا اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا ؓ کو اپنی مدافعت میں لڑتے دیکھا۔‘‘ اس دن ان کے جماؤاور ثابت قدمی کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] سیرۃ ابن ہشام :۳،/۲۹،۳۰