کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 43
پر بیٹھنے لگے تو بیٹی نے فوراً اس کو تہہ کر دیا ۔باپ کے لیے یہ حرکت سخت تعجب خیز تھی۔پوچھا ،کیا تم نے اس کو میرے شایانِ شان نہ سمجھ کر اُٹھا دیا یا مجھے اس قابل نہ سمجھا کہ اس پر بیٹھوں ۔بیٹی نے جواب دیا۔یہ رسولِ خدا کا بستر ہے اور آپ مشرک اور نجس ہیں ۔ میں اس مقدس بستر پر آپ کو بٹھا کر اس کو پلید کرنا نہیں چاہتی۔[1] قرآنِ مجید کا حکم ہے کہ خدا کے دشمنوں اور محاربین سے اہلِ ایمان کو کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ایک مرتبہ حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی مشرک والدہ بنت عبدالعزّٰی،تحفے تحائف لیے ہوئے مکہ سے مدینہ ان کے گھر آئیں ،حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے ماں کے تحفوں کو قبول کرنے بلکہ ان کو اندر آنے کی اجازت دینے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ کیا میں ان کو اپنے گھر ٹھہرا سکتی ہوں ؟اور یہ کہ وہ مجھ سے مدد اور ہمدردی کی توقع رکھتی ہیں کیا ان کے ساتھ تعاون اور حسن ِسلوک میرے لیے جائز ہے ؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:ہاں ،تمہارے لیے یہ دونوں باتیں جائز ہیں ۔[2] جن لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اِفتراپردازی میں حصہ لیا،ان میں مسطح ؓ بن اَثاثہ بھی تھے، ان کی ماں کے ایمانی تقاضوں نے اس کی اجازت نہ دی کہ بیٹے کی غلط حرکت کو گوارا کر لیں یاکم از کم تاویل وتوجیہ کے پردوں میں اس کو چھپا دیں ۔ابن سعد نے لکھا ہے : ’’کانت من أشد الناس علیٰ مسطح حین تکلم مع أہل الإفک في عائشۃ‘‘[3] ’’مسطح نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر افترا پردازی کرنے والوں کے ساتھ تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو یہ ان پر اور تمام لوگوں سے زیادہ سخت تھیں ۔‘‘ روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ ہر وقت ان کے اس غیر شرعی اور نارواعمل پر پیچ وتاب کھاتی اور غم وغصہ کا اظہار کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ باہر سے گھر آرہی تھیں کہ پیر میں چادر اُلجھ گئی تو ایک دم وہی اندرونی جذبات اُبھرآئے اور بیٹے کو بددعا دینے لگیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کواس وقت تک مسطح کی اس حرکت کا علم نہیں تھا اس لیے وہ مدافعت کرنے لگیں تو اُنھوں نے ان افواہوں کاذکر کیا جو مدینہ کی فضا میں گشت کر رہی تھیں ۔[4]
[1] طبقات ابن سعد:۸/۷۰ [2] صحیح بخاری:۵۹۷۸ [3] طبقات ابن سعد: ۸/ ۱۶۶ [4] صحیح بخاری:۴۱۴۱