کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 39
ہے اوراس کا تجزیہ کرنا بھی انسان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔اس درجہ میں تکبر صرف دل تک محدود رہتا ہے اور انسان کے عمل یا قول میں داخل نہیں ہوتا۔ 2. تکبر کا دوسرا درجہ دل کے بعد اپنے افعال واعمال میں تکبر کا اظہار کرناہے ۔ مثلاً کوئی شخص مجالس،محافل، دوستوں ،خاندان اورمعاشرے میں اپنے عمل وفعل کے ذریعے اپنی بڑائی چاہے جیسا کہ ہم نے سابقہ صفحات میں اس کی کئی ایک مثالیں بیان کی ہیں ۔حدیث میں تہبند یا شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا عملی تکبر میں شامل کیا گیا ہے۔گردن میں چادر ڈال کردونوں کندھوں سے نیچے لٹکانا بھی پنجاب کے چوہدریوں میں عملی تکبر کی ایک صورت ہے۔بعض اوقات جبوں اور قبوں کے ذریعے بھی عملاً اپنی بڑائی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ 3. تکبر کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل اور عمل سے بڑھ کر ا پنی زبان سے فخر کا اظہار کرے مثلاً اپنے تزکیۂ نفس یا نیک ہونے کے دعوے کرے۔بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے وہ باتوں باتوں میں ہر کسی کو اپنے تہجد گزار ہونے یانیک ہونے یابڑا عالم دین ہونے یا تعلیمی اسناد کی تاریخ سنانے یا عظیم محقق ہونے یافل پروفیسر ہونے یا دین کا عظیم خادم بتلانے کے لیے بے چین ومضطرب ہوتے ہیں ۔بلاشبہ اس قسم کے ا قوال میں تکبر قولی کی واضح صورت جھلکتی نظر آتی ہے اور اگر کسی شخص میں یہ عادت ہو تو اسے اپنے اپنی باطنی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ تکبر کے اسباب تکبر کیوں پیدا ہوتا ہےیا اس کے اسباب کیا ہیں ؟تکبر کے اسباب میں سے اہل علم نے حسد، بغض، کینہ ، عجب اور ریا کاتذکرہ کیا ہے۔ جب کوئی شخص مال، علم، حسن وجمال یا مقام ومرتبے میں دوسرے سے حسد محسوس کرتا ہے تو عموماً اس پر تکبر کے ذریعے بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی دوسرے سے اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہے تو یہ