کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 38
عالم دین اپنے علاوہ علما کو اپنے سے حقیر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا جانتا ہے۔ بعض شیوخ الحدیث ، مفتیانِ کرام ،کبار علما اور محققین کو آپ دیکھیں گے کہ سائلین کے ساتھ بیٹھنا اپنے وقار کے منافی سمجھتے ہیں یاطالبانِ دین اور نوجوان علما کے ساتھ علمی تبادلۂ خیال میں عار محسوس کرتے ہیں یا کسی دیہاتی مخلص سائل کی رہنمائی کو اپنے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں یادوسرے علماکے دلائل پر اس لیے توجہ نہیں دیتے یا ان کی تحقیقات سے استفادہ نہیں کرتے کہ وہ علم میں ان کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ علمی تکبر کے اس دریا میں فقہی مسالک و مذاہب کے متبعین کی اکثریت سر تا پاؤں غرق ہے۔ ایک مسلک کے نمائندہ علمادوسرے مسالک و مذاہب کے علما کو حقیر جانتے ہیں اور انتہائی اخلاص سے یہ تکبر اپنے دل میں پالتے رہتے ہیں کہ علمی اعتبار سے اس جہاں میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اگرکسی بڑے عالم دین، شیخ الحدیث یا مفتی صاحب کو مذہبی جلسہ وتقریب کے دوران سٹیج پر جگہ نہ ملے اور وہ عوام الناس کے ساتھ نیچے فرش پر بیٹھنے میں حجاب محسوس کریں تو یہ عالم دین، شیخ الحدیث اورمفتی صاحب علمی تکبر میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔اسی طرح اگر کسی عالم دین یا شیخ الحدیث یا مفتی صاحب کو مخاطب کرتے وقت اِلقابات کا لحاظ نہ کیا جائے اور براہِ راست ان کا نام لے لیا جائے اور وہ اس کو برا جانیں توبلاشبہ یہ بھی تکبر ہی کی ایک قسم ہے۔ اس بحث سے مقصودِ کلام ہے کہ ہمارے ذہنوں میں عام طور پر تکبر کی یہ صورتیں نہیں ہوتی ہیں ۔ہم میں سے ہرشخص کو اپنے ہر ہر فعل اور عمل کا محاسبہ اور تجزیہ کرتے رہنا چاہیے کہ میرا یہ عمل کہیں میری باطنی نشوونما یا تزکیہ میں رکاوٹ تو نہیں بن رہا ہے۔ تکبر کے درجات بعض اہل علم نے تکبر کے تین درجات بیان کیے ہیں : 1. دل میں اپنی بڑائی ہو اور ظاہر میں تواضع وانکساری ہو۔تکبر کا یہ درجہ انتہائی خطرناک