کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 37
کہ فلاں کو تو پہنے کا ڈھنگ ہی نہیں ہے یا فلاں اپنی شکل و صورت میں بہت ہی سادی ہے یا فلاں کے چہرے پر تو مسکینی ہی چھائی رہتی ہے یا فلاں سٹائلش نہیں ہے ۔ ایسے تمام تبصروں سے اگر تو حسین عورت کا مقصود اپنے آپ کو دوسری خواتین کے بالمقابل برتر سمجھنا یاثابت کرنا ہو تو یہ تکبر ہے ۔ اور اگر اس کے دل میں ان تبصروں کے وقت اپنے حسن کی بڑائی موجود نہ ہوتو یہ غیبت ہے جو تکبر ہی کی طرح حرام ہے، اگرچہ حرمت میں اس کا گناہ تکبر سے کم ہے۔ 3. اپنے پیروکاروں کی کثرت کے ذریعے تکبر کرناجیسا کہ علمایا صوفیا یاگدی نشینوں یاخطبا یا واعظین یا مذہبی و سیاسی جماعتوں یا انقلابی تحریکوں کے قائدین میں ہوتا ہے۔تکبر کی اس صورت میں ایک شخص اپنے متبعین یا متاثرین کی کثرت کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔مثلاً جب کوئی بڑا خطیب یا مشہور واعظ دوسرے خطبا وواعظین پر یہ تبصرہ کرے کہ اُنہیں تو منبر پر کھڑا ہونا ہی نہیں آتا یا انہیں تو پتہ ہی نہیں تقریر کیسے کرتے ہیں ؟ یا فلاں خطیب تو بس جمعہ ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں وغیرہ تو یہ خطیب اور واعظ بھی بلاشبہ تکبر کے مرض میں مبتلا ہو چکا ہے۔ بعض اوقا ت متبعین اور متاثرین بھی اس تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں مثلاً کسی جماعت یا تحریک سے وابستہ کارکنان اپنی جماعت یاتحریک کے ممبران کی کثرت پر اِتراتے نظر آتے ہیں یا علما،شیوخ ، اساتذہ، صوفیا اور مربیین کے پیروکارو اپنے عالم، پیر ،شیخ، مربی اور اُستاذکو دوسرے علما،صوفیا ، شیوخ ، مربیین اور اساتذہ کے مقابلے میں آسمان پر چڑھانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حضرات اپنے شیخ ، اُستاذ ، پیر یا مربی کو دوسروں سے بالاتر قرار دیتے ہوئے دراصل یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ جب ہمارے شیخ اور اُستاذ تمہارے شیخ اور استاذ سے بہتر ہیں تو ہم ان شیوخ و اساتذہ کے شاگرد دوسرے شیوخ واساتذہ کے شاگردوں سے بہتر ہیں ۔ 4. اپنے علم پر تکبر کرناجیسا کہ بعض علما میں یہ مرض پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں ایک