کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 35
بارے مشکوک ہو جاتے ہیں یا کسی وہم کا شکار ہو جاتے ہیں ،وہ بھی اس تکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ایسے پریشان خیالوں کی زبان پر آپ اکثر یہ جملے نوٹ کریں گے کہ پتہ نہیں خدا ہے بھی یا نہیں ؟ اگلی دنیا میں جزا وسزا ہے بھی یا نہیں ؟ ہم نہ تو خدا کا اقرار کرتے ہیں اور نہ ہی انکار .... وغیرہ 2. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تکبر کرنایعنی حق کے معاملہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرنااور اکڑ جانا۔ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے آپ سے سوال کیا کہ کیا اچھے کپڑے یا نیاجوتا پہنا بھی تکبر میں داخل ہے تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور جہاں تکبر کا معاملہ ہے تو وہ یہ ہے: ((الکبر بطر الحق وغمط الناس)) [1] ’’ تکبر تو حق بات کو جھٹلا دینا ہے اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔‘‘ تکبر کی اس قسم میں اعتقادی منافقین اور منکرین حدیث مبتلاہوتے ہیں ۔ایسے حضرات کی زبانوں سے ایسے جملے بکثرت سننے کو ملیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو ہمارے جیسے انسان ہیں تو ان کی اتباع واطاعت کیوں ؟ یا ہم بھی اللہ کی کلام کو ایسے ہی سمجھ سکتے ہیں جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآنی تفسیر و تشریحات تو عرب کے غیر متمدن معاشرے کے لیے تھیں نہ کہ ہماری آج کی متمدن اور مہذب دنیا کے لیے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سمجھنے کا جتنا حق حاصل تھا، اتنا ہمیں بھی حاصل ہے ...وغیرہ 3. اللہ کے بندوں پر تکبر کرنایعنی کسی بھی وصف کے اعتبار سے دوسرے انسانوں کی نسبت اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اُنہیں حقیر جاننا۔صحیح مسلم کی مذکورہ بالا روایت میں ’غمط الناس‘ کا معنی بعض اہل علم یہ بیان کیا ہے کہ اللہ کی دی ہوئی کسی نعمت میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں کو اس نعمت میں حقیر جاننا غمط الناس ہے جسے آپ نے تکبر کہا ہے۔انسانوں میں تکبر کی سب سے عام قسم یہی ہے۔
[1] صحیح مسلم:91