کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 34
کرنا ہے۔ رذائلِ انسانیہ میں سے ایک اہم تروصف تکبر ہے۔تکبر سے ملتے جلتے کئی ایک رذائل کی کتاب و سنت میں نشاندہی کی گئی ہے جو درج ذیل ہیں : کبر عجب حب جاہ حب تفوق ریا تکبّر تکبر کا معنیٰ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسرے کو حقیر جاننا ہے۔ کتاب وسنت میں تکبر کرنے والے کے لیے ’متکبر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔متکبرین کے بارے نصوص میں بہت شدید وعید آئی ہے ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ((لا یدخل الجنة من کان في قلبه مثقال ذرة من کبر )) [1] ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی اپنی بڑائی ہو۔‘‘ تکبر کے بارے اس مضمون میں ہم نے تکبر کی حرمت اور شناعت پر نصوص کی کثرت نقل كرنے کی بجائے صالحین اور اہل علم کےا قوال کی روشنی میں اس باطنی مرض کا ایک تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس مرض کی تشخیص اور پہچان عام ہو سکے۔ تکبر کی اقسام اہل علم نے تکبر کی تین بڑی اقسام بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں : 1. اللہ پر تکبر کرنایعنی اللہ کے مقابلے میں اکڑنا جیسا کہ فرعون نے اس تکبر کا اظہار کیا تھا اور اپنے آپ کو اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى کا لقب دیا۔تکبر کی یہ قسم دہریت کا لازمہ ہے۔ دہریہ یعنی اللہ کا منکر تکبر کی اس قسم میں لازماً مبتلاہوتا ہے۔عموماً دہریوں کی زبان سے یہ الفاظ سننے میں آتے ہیں کہ ہم نے اہل مذہب کے خدا کواس دنیا سے نکال دیا ہے ۔ یہ تکبر کی بدترین صورت ہے۔جو مسلمان یا آسمانی مذاہب کے قائلین اللہ کے وجود کے
[1] صحیح مسلم:91