کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 33
مکارمِ اخلاق حافظ محمد زبیر تکبّر : ایک تجزیاتی مطالعہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ظاہروباطن دونوں کی اصلاح کے لیے شریعتِ اسلامیہ اور انبیاء ورسل کا سلسلہ جاری فرمایاہے۔ انسانی طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ باطن کی نسبت ظاہر پر توجہ زیادہ دیتی ہے اور باطن کی اصلاح کی بجائے ظاہر شریعت پر عمل ہی کو کل دین سمجھ لیتی ہے۔ سابقہ مسلمان اقوام مثلاًیہود پر بھی ایک زمانہ ایسا آیا کہ وہ موسوی شریعت کے ظاہر میں اس قدر اُلجھے کہ اپنی باطنی اصلاح سے کلی طور پر غافل ہو گئے۔ اس زمانہ میں اُن میں تورات کے بڑے بڑے فقہا اور علما تو موجود تھے اور ظاہر شریعت پر عمل بھی خوب ہو رہاتھا لیکن منکسر مزاجی،تواضع، انکساری،نرم دلی، خدا خوفی، للہیت، خشیت، تقویٰ اور تقرب الیٰ اللہ جیسے اوصافِ حسنہ مفقود تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی باطنی اصلاح اور تزکیہ کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاصر انجیل میں موجود خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے علمائے یہود کو اپنے باطن کی اصلاح اور تزکیہ نہ کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ خیرُ القرون کے بعد اُمتِ مسلمہ کی اکثریت میں بھی باطن کی اصلاح یا تزکیۂ نفس کی نسبت ظاہر شریعت یعنی فقہی مسائل اور ان پر عمل کی طرف توجہ زیادہ رہی ہے جس کی وجہ سے دین کا یہ اہم گوشہ نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ کچھ طبقات نے اگر ہر دور میں اصلاحِ باطن کی طرف ’تصوف‘کے نام سے توجہ دی بھی تو اس میں اصلاح کے شرعی منہج اور طریقہ کار کو نظر انداز کیا گیااور اپنے ذاتی مشاہدات وتجربات کو اصلاحِ باطن اور تزکیہ کے نبوی طریق کار پر ترجیح دی گئی اور اس طرح تصوف ایک مستقل دین بن کر سامنے آگیا۔ اصلاحِ باطن اور تزکیۂ نفس کا ایک اہم موضوع رذائل سے اپنے نفس اور باطن کو پاک