کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 31
جلسوں اور جمعہ کے خطبوں میں اختیار کیا جاتا ہے، نہ اس سے ادیبانہ اُسلوب مراد ہے جس میں مترادفات، تکرار اور تشبیہات کی بھر مار ہوتی ہے بلکہ اس سے مراد وہ عام فہم اُسلوب ہے جو علمی مضامین کی تفہیم میں بروئے کار آتا ہے۔ اسی طرح عمدہ تدریس کے لیے نظم و ترتیب بھی بہت ضروری ہے۔مطلب یہ کہ آپ اپنا حاصل مطالعہ کیسے مرتب اور متوازن انداز میں پیش کریں جس سے سامع اور شاگرد کو فائدہ پہنچے۔ علاوہ ازیں شاگردوں کے معیار اورذہنی سطح کی رعایت بھی بہت ضروری ہے۔ 5. اُستاد کو چاہیے کہ سبق پڑھاتے وقت ایسی تقریر نہ کرے جو طالبِ علم کے فہم اور استعداد سے بالاتر ہو۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُونَ، أَتُرِیدُونَ أَنْ یُّکَذَّبَ الله وَرَسُولُه؟[1] ’’لوگوں سے ان کی سمجھ اوراستعداد کے مطابق حدیثیں بیان کرو، کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تکذیب کردی جائے؟‘‘ 6. طالب علم کی حوصلہ افزائی فرمائیے: اُستاد کو چاہیے کہ اچھی تعلیمی کارگزاری اور درست جوابات دینے پر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کی ہمت بڑھائے۔ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبی بن کعب سے پوچھا: کیا تجھے معلوم ہے کہ کتاب اللہ کی سب سے عظیم آیت کونسی ہے؟ اُبی بن کعب نے جواب دیا: آیت الکرسی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کراُن کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: ((لِیَهْنِكَ الْعِلْمُ، أَبَا الْمنْذِرِ)) [2] ’’ابومنذر! تجھے علم مبارک ہو۔‘‘ 7. اُستاد کو طالب علم کے حق میں دعا کرنی چاہیے:اُستاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے حق میں خیروبرکت اور توفیق ودانائی کی دعا کرتا رہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے بیت
[1] صحیح بخاری تعلیقاً : 127 [2] صحيح مسلم:810