کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 30
((یَا أَبَا سَعِیدٍ! مَنْ رَضِيَ بِاللّٰهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ)) [1] ’’ اے ابو سعید ! جو شخص اللہ کے ربّ ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے پر راضی ہو تو اس کے لیے جنت واجب ہے۔‘‘ اسی طرح غیبت اور زبان کے دوسرے گناہوں سے بھی اجتناب کیا جائے۔ 4. علم سے آراستہ کرنے کا جذبہ پیدا کیجیے: استاد پر لازم ہے کہ وہ طالبانِ علم کو علم سے آگاہ کرنے میں بخل سے کام نہ لے، علم و دانائی کے بارے میں کچھ پوچھا جائے تو ضرور بتائے ورنہ گناہ گار ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَه ثُمَّ کَتَمَه أُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ)) [2] ’’جس سے اس علم کے بارے میں پوچھا جائے جو اسے حاصل ہے، پھر وہ اسے چھپائے (اور نہ بتائے) قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔‘‘ علم رسانی کے سلسلے میں صرف جذبہ کافی نہیں بلکہ اس کے لیے چند مزید بنیادی باتیں ضروری ہیں ۔ اُستاد کے لیے ضروری ہے کہ اسے جو سبق اور جو مضمون پڑھانا ہو، اس پر اسے کامل عبور حاصل ہو، اس کے بارے میں طالبِ علم کے ذہن میں جو بھی اشکال یا سوال آسکتا ہو، اس کا حل اس کے پاس موجود ہو۔ یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب معلّم نے متعلقہ مضمون کا بھر پور مطالعہ اور تیاری کی ہو۔ طالب ِعلم استاد کے پاس امانت ہیں ، لہٰذا مضمون کی بھر پور تیاری نہ کرنا امانت میں خیانت ہے۔ بخوبی مطالعہ کے بعد اُستاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسے اظہار مافی الضمیر اور مناسب اندازِ تعبیر پر قدرت حاصل ہو، یعنی جس مضمون کا اس نے مطالعہ کیا ہے، اُسے خوبصورت اسلوب اور دل نشین انداز میں طلبہ کے سامنے بیان کر سکے۔اظہار مافی الضمیر کی صلاحیت سے مراد خطیبانہ انداز قطعاً نہیں ہے جو وعظ کی محفلوں ،
[1] صحیح مسلم:1884 [2] جامع ترمذی:2649