کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 3
سکتے۔مغربی استعمار ایک دفعہ پھر عالم اسلام پر فریب کے پردوں میں حملہ آور ہے۔ اس دفعہ وہ کچھ پرانے اور زیادہ تر نئے ہتھیاروں سے مسلّح ہے۔جنگی جہازوں او رہلاکت خیز میزائلوں کےساتھ ساتھ اس دفعہ فیس بُک،ٹویٹر، یو ٹیوب کی صورت میں سوشل نیٹ ورک کےنہایت مؤثر ابلاغی ہتھیار مذکورہ عرب ممالک میں شورشوں کو ہوا دینے میں بے حد مؤثر کردارادا کررہے ہیں ۔ ہمارےخیال میں تیونس، مصر،لیبیا اور یمن میں یہ آزادی کے ترانے گونجتے سنائی دیتے نہ آمر حکمرانوں کے تخت ’عوامی‘ شورشوں کے نتیجے میں لرزہ براندام نظر آتے، اگر امریکہ اور یورپی استعماری ریاستیں ان تحریکوں کی پشتیبان نہ ہوتیں اورعالمی استعمار ان تحریکوں کی سرپرستی کبھی نہ کرتا، اگر اس کے عظیم معاشی اور سیاسی مفادات ان سے وابستہ نہ ہوتے۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جو کچھ ہورہا ہے اسے’تہذیبوں کے تصادم‘ کے موضوع پر لکھے گئے استعماری ڈرامے کا پہلا ایکٹ کہا جاسکتا ہے۔ اس خوفناک ڈرامے کی تفصیلات ایک ضخیم کتاب کی متقاضی ہیں ۔ تادمِ تحریر تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ان کی جارحانہ افواج کی لیبیا پر یورشوں کو پورا مہینہ گزر گیا ہے۔ 14 مارچ کو امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لیبیا میں ’نوفلائی زون‘ کے قیام اور لیبیا کی عسکری قوت کونشانہ بنانے کی قرارداد منظور کرانے میں بآسانی کامیاب ہوگیا۔ 19 مارچ کو تمام دنیا کے ٹیلی ویژن نیٹ ورک ان استعماری اقوام کے بمبار جہازوں کو لیبیا میں غارت گری کرتے دکھا رہے تھے۔ پہلے ہی فضائی حملے میں لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذافی کے شاہی محل کو تباہ کردیا گیا۔ اس جارحانہ دہشت گردی میں اُس کے ایک نوجوان بیٹے کی ہلاکت کی خبر بھی نشر ہوئی۔لیبیا کے شہروں بن غازی، مصراط، طرابلس وغیرہ کے ہوائی اڈوں پر بمباری کے ذریعے اُنہیں پروازوں کے لیے ناکارہ بنا دیا گیا۔ 6/اپریل کو اخبارات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ امریکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ معمر قذافی کی 25 فیصد فوجی طاقت کو تباہ کردیا گیا ہے۔ امریکہ او ریورپی استعماری ممالک نے لیبیا پرحملہ برپا کیوں کیا ہے؟ کیا وہ لیبیا کے شہروں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آئے ہیں ، جیسا کہ اُن کا دعویٰ ہے؟ کیا اُنہیں کرنل قذافی