کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 29
جگہ قائم نہیں رہ سکتا۔اگر اُستاد جھوٹ کا سہارا لے گا تو سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائے گا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ شاگردوں کے دلوں میں استاد اور اس کے بیان کردہ یا تحریر کردہ مضمون کی وقعت ختم یا کم ہو جائے گی۔ اس سے پوری اُمت کو اجتماعی نقصان پہنچتا ہے۔ بعض اوقات شاگرد کا دل اس طرح ٹوٹ جاتا ہے کہ وہ دوسرے اساتذہ سے بھی بدظن ہوجاتاہے۔ استاد کو بدزبانی سے بھی محتاط رہنا چاہیے۔ درس گاہ میں اور درس گاہ سے باہر بھی طالبانِ علم سے گفتگو کرتے ہوئے شائستہ لہجہ اختیارکرنا چاہیے۔ بعض اساتذہ اپنے شاگردوں کو او موٹے! اے چشمے والے! اے زلفوں والے اور اوئے کالے وغیرہ جیسے الفاظ سے پکارتے ہیں ۔اس طرح اُس کا مذاق اڑاتے ہیں ، یہ نہایت مذموم طریقہ ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس عمل سے منع فرمایا ہے۔ ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ١ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ١. بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾[1] ’’ اے ایما ن والو! کوئی قوم کسی قوم کا تمسخر نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ کوئی عورت دوسری عورت کا مذاق اُڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور اپنے آپ پر عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارو۔ایمان کے بعد فسق کے نام سے ملقب کرنا برا ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔‘‘ اس سلسلے میں یہی طریقہ مفید ہے کہ پڑھائی کے دوران استاد اپنے شاگرد کو اس کے نام یا کنیت سے مخاطب کرے۔ طلبہ کو نام سے مخاطب کرنے سے ان میں سبق کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین شاگرد تھے، نام لے کر مخاطب فرماتے تھے۔ ایک دفعہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
[1] الحجرات:11