کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 28
ہے۔زبان کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ زبان کی حفاظت کرے اور اسے ناجائز اورنامناسب باتوں سے بچائے رکھے۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الاْخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ)) [1] ’’جو شخص اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ بھلائی اور خیر کی بات کہے، ورنہ خاموش رہے۔‘‘ چونکہ اُستاد اپنے شاگردوں کے لیے نمونہ ہوتاہے، اس لیے اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو کو محتاط اور متوازن بنائے، لچرپن اوربے ہودگی سے بوجھل الفاظ سے پرہیز کرے۔ ایک حدیث میں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی بے اِعتدالی کے نقصانات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ((إن العبد لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَةِ مَا یَتَبَیَّنُ فِیهَا یَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ)) [2] ’’یقینا بندہ ایک بات کرتا ہے، اس پر غور و فکر نہیں کرتا۔ وہ اس بات کی وجہ سے مشرق و مغرب کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ جہنم کی آگ کی طرف گر جاتاہے۔‘‘ بعض دفعہ انسان کی زبان سے ایسا کلمۂ شر اَدا ہو جاتا ہے کہ اسے اس کی تباہ کاری کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ کبھی اس کی کوئی بات کسی کی دل آزاری یا گمراہی یا ظلم و معصیت کا سبب بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہ انسان تباہی کے گڑھے میں گر جاتاہے۔ لہٰذااُستاد وشاگرددونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبان کی حفاظت کریں اور زبان کے ذریعے سے جن گناہوں کا ارتکاب کیا جاتاہے، ان سے اپنے دامنِ تعلیم و تعلّم کو بچائیں ۔ 3. سچ کی تعلیم دیجیے اور جھوٹ سے نفرت سکھائیے: جھوٹ ایسا معاشرتی ناسور ہے جو بہت سے گناہوں کا پیش خیمہ ہے،لہٰذا معلّم و متعلّم اس سے بچیں ۔ سچائی کی صفت ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، لیکن معلم کے لیے بے حد ضر و ری ہے۔ جس طرح زندہ انسان کے لیے غذا کے بغیر گزارہ مشکل ہے، اسی طرح استاد سچائی کے بغیر ایک لمحہ بھی اپنی
[1] صحیح بخاری:6018 [2] ایضاً:6477، صحيح مسلم:2988