کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 27
قائم کیا ہے اورناپسندیدہ عمل پر تنبیہ کو صحیح عمل قرار دیا ہے۔ پس اگر معلّم شاگرد کی کسی غلطی پر غصے میں آجائے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ۔ سعادت مند طالب علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے مکرم اُستاد کی سخت باتیں بھی چپ چاپ ادب کے ساتھ سن لے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ اُستاد پر شاگرد کے حقوق 1. نرمی و نوازش کا سلوک کیجیے: اُستاد کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اُسوہ بنا کر اپنے شاگردوں سے نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾[1] ’’اللہ کی رحمت سے آپ ان کے لیے نرم ہوگئے اوراگر آپ درشت اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بکھر جاتے۔‘‘ لہٰذا اُستاد شاگردوں کے لیے نرمی کا پہلو اختیار کرے، اورنبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کو بھی پیش نظر رکھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَا)) [2] ’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر و تعظیم نہ کرے۔‘‘ اس بنا پر اُستاد کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے سر پر شفقت کاہاتھ رکھے، اگر ان سے کوئی نامناسب حرکت ہوجائے تو درگزر کر ے، ان سے وقار اور بردباری کے ساتھ پیش آئے۔ 2. زبان کی حفاظت کیجیے: اُستاد کی ذمہ دار یوں میں سے ایک اہم ذمہ داری زبان کی حفاظت
[1] آلِ عمران:159 [2] جامع ترمذی:1919