کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 26
الزام ٹھہرائیں گے، چنانچہ اپنے اساتذہ کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق میں سے ہے۔ 4. پابندی سے حاضری کے علاوہ کلاس روم میں توجہ اور دھیان سے سبق سننا اور یاد کرنا طالب علم کی بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ مزید برآں یہ اُس پر استاد کا حق ہے۔ 5. اگر سبق سمجھ میں نہ آئے تو اُستاد سے پوچھ لینا طالبِ علم کی ذمہ داری ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِّيِ السُّؤَالُ)) [1] ’’یقیناً (علم کی) محتاجی کا علاج سوال کرنے میں ہے۔ ‘‘ 6. یہ بھی طالب ِعلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ محترم استاد کو عام انسانوں کی طرح انسان ہی سمجھے جس سے غلطی کا سرزد ہوناعین ممکن ہے۔ اسکی درشتی اور سختی کو برداشت کرے۔ اسکی برائی سے اجتناب کرے، اسکے عیبوں کی پردہ پوشی کرے اور خوبیوں کو اُجاگر کرے۔ 7. فضول اور وقت ضائع کرنے والے سوالات سے پرہیز کرے۔ 8. طالب ِعلم یہ بھی یاد رکھے کہ غلطی پر استاد کا خفا ہونا ایک فطری چیز ہے، لہٰذا طالب علم اُستاد کے غصے کو محسوس نہ کرے۔بلکہ یہ سمجھے کہ اُستادکا میری غلطی پر ناراض ہونا خود میرے ہی لیے مفید ہے۔ ایک دفعہ معلّم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کولمبی لمبی نماز یں پڑھانے کے باعث معاذ بن جبل پر شدید ناراض ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: ((أَفَتَّان یَا مُعَاذُ!)) [2] ’’اے معاذ! کیا تو لوگوں کو فتنے میں ڈالنے والا ہے؟‘‘ اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں بَابُ الْغَضَبِ فِي الَمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِیم ِإذَا رَأَی مَا یَکْرَهُ ''وعظ و تعلیم میں ناپسندیدہ بات دیکھنے پر غصے ہونا'' کا باب
[1] سنن ابوداؤد:336 [2] سنن نسائی:998