کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 25
جائیں ، عبداللہ بن عباس آگے بڑھے اور سواری کی رکاب تھام لی،زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی! آپ ایسا نہ کریں ۔ ابن عباس نے فرمایا: هٰكَذَا یُفْعَلُ بِالْعُلَمَاء وَالْکُبَرَاء[1] ’’جی نہیں ، میں یہ رکاب ضرور پکڑوں گا، کیونکہ علما اور بڑوں کا یہ حق ہے کہ ان سے ایساہی برتاؤ کیا جائے۔‘‘ اُستاد کا کیا مقام ومرتبہ ہے؟ یہ امام شعبہ رحمہ اللہ سے پوچھئے، فرماتے ہیں : کُلُّ مَنْ سَمِعْتُ مِنْهُ حَدِیثًا، فَأَنَا لَه عَبْد[2] ’’جس سے میں نے ایک حدیث پڑھی ہے، وہ میرا آقا اور میں اس کا غلام ہوں ۔‘‘ پس جب طالب علم اپنے اُستاد کا حد درجہ احترام کرے گا، تب ہی اسے علم کی بیش قیمت دولت حاصل ہوگی۔ اگر طالب ِعلم بدخواہ اور بے ادب ہے تو علم سے محروم ہی رہے گا۔ ایک شاعر نے خوب کہا ہے: إِنَّ الْمعَلِّمَ وَالطَّبِیبَ کِلَاهُمَا لَا یَنْصَحَانِ إِذَا هُمَا لَمْ یُکْرَمَا فَاصْبِرْ لِدَائِكَ إنْ أهَنْتَ طَبِیْبَه وَاصْبِرْلِجَهْلِك إنْ جَفَوْتَ مُعَلِّمَا[3] ’’معلّم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے وہ خیر خواہی نہیں کرتے۔ بیمارنے اگر طبیب کی توہین کر دی تو وہ اپنی بیماری پر صبر کرے اور اگر شاگرد نے اپنے استاد کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔‘‘ 3. طالب ِعلم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے اجتناب کرے، ناغہ کرنے سے اس کے علم واستعداد میں کمی آئے گی۔ نتیجتاًلوگ اس کے استاد ہی کو موردِ
[1] جامع بیان العلم وفضلہ:1/514 [2] ایضاً: 1/512 [3] اَدب الدنیا والدین:1/75