کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 24
مدنظر رکھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیرَنَا)) [1] ’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر واحترام نہ کرے۔‘‘ اس لیے شاگرد پر لازم ہے کہ وہ اُستاد کا احترام کرے اور اس کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی اپنے آپ کو بچائے۔استاد معلّم و مربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إنَّمَا أَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ،أُعَلِّمُکُمْ)) [2] ’’میں تمہارے لیے بمنزلۂ والد ہوں ، تمہیں تعلیم دیتا ہوں ۔‘‘ چنانچہ روحانی ماں باپ کی تکریم و تعظیم کیجیے۔ اُستاد سے آمرانہ اسلوبِ گفتار سے پرہیز کریں ، اس کے سامنے اَدب اور شائستگی سے بیٹھیں ، اس کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کریں ۔ 2. طالب علم کو تکبر و بڑائی سے دوررہنا چاہیے، اپنے اندر عجز واِنکسارپیدا کرنا چاہیے۔اَمیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، وَتَعَلَّمُوا لَهُ السَّکِینَةَ وَالْوَقَارَ، وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تَتَعَلَّمُونَ مِنْهُ وَلِمَنْ تُعَلِّمُونَه، وَلاَ تَکُونُوا جَبَابِرَة َالْعُلَمَاءِ[3] ’’علم حاصل کرو۔ اس کے لئے سکینت ووقار بھی سیکھو۔ جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنھیں سکھاتے ہو اُن کے لیے تواضع اورعاجزی اختیار کرو۔جبر کرنیوالے علما مت بنو۔‘‘ اَساتذہ کے ساتھ اَدب واحترام کاایک سبق آموز واقعہ سیدنا عبداللہ بن عباس کا ہے، جسے امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں ذکر کیا ہے۔ نقل کرتے ہیں : ایک دفعہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جو قرآن کے حافظ اور کتاب و سنت کے بہت بڑے عالم تھے، نے ایک جنازہ پڑھایا۔ واپسی کے لیے سواری لائی گئی تاکہ آپ اس پر سوار ہو
[1] جامع ترمذی:1919 [2] سنن ابوداؤد:8 [3] جامع بیان العلم وفضلہ:1/512