کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 23
تعليم وتعلّم مفتی عبد الولی خان دار السلام، لاہور اُستاد اور شاگرد کے باہمی حقوق قرآنِ کریم اور احادیثِ طیبہ کی روشنی میں تعلیم ایک ذریعہ ہے،اس کا مقصد اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ اُستاد اورشاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں ۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں ، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا: ﴿يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ﴾[1] ’’اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان(لوگوں ) کو کتاب وحکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے ہیں ۔‘‘ اس بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں ۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ حقوق استاد پر عائد ہوتے ہیں جبکہ بعض شاگرد پر ؛ جن کی تفصیل پیش کی جاتی ہے: شاگرد پر اُستاد کے حقوق 1. سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ طالب علم نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کو
[1] سورة البقرة:129