کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 21
ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ اور ابن بطال رحمہ اللہ کا مؤقف:ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ نے تطبیق میں استثنائی صورت اختیار کرتے ہوئے جذام اور اس جیسے دیگر امراض کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد((لا عدوٰی))کے تحت شمار نہیں کیا بلکہ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نفی کی ایک عام صورت قرار دیا ہے۔ ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’إن إثبات العدوٰی في الجذام ونحوہ مخصوص من عموم نفي العدوی فیکون معنی قولہ (لا عدوٰی) أی إلا من الجذام ونحوہ،فکأنہ قال لا یعدي شيئٌ إلا فیما تقدم تبنی لہ أنہ یعدي‘‘[1] ابن بطال رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔[2] ضعیف موقف تطبیق کے حوالے سے ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مجذوم سے فاصلہ پر رہنے کا ارشاد دراصل اسے احساسِ مرض اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دوسرے ارشاد: ((لا تدیموا النظر المجذومین)) [3] کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے: ’’أن الامر بالفرار رعایۃ لخاطر المجذوم لأنہ إذا رأی الصحیح تعظم مصیبتہ وتزداد حسرتہ،ویؤیدہ حدیث((لا تدیموا النظر إلی المجذومین)) فإنہ محمول علی ھذا المعنیٰ‘‘[4] لیکن یہ موقف ضعیف ہے، کیونکہ ہمیشہ تندرست انسان کی مصلحت کو پیش نظر رکھا جاتاہے جیسا کہ احمد محمد شاکر اس موقف کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’وأضعفھا المسلک الرابع کما ھو ظاہر، لأن الأمر بالفرار ظاہر في تنفیر الصحیح من القرب من المجذوم۔ فھو ینظر بمصلحۃ الصحیح أولاً،مع قوۃ التشبیہ بالفرار من الأسد؛ لأنہ لا یفر الانسان من الأسد
[1] الباعث الحثیث، ص:۱۶۷، ألفیۃ السیوطی في علم الحدیث،ص:۱۸۰ [2] فتح الباری: ۱۱/۳۰۹ [3] سنن ابن ماجہ:۳۵۴۳ [4] الفیۃ السیوطی، ص:۱۸۰،الباعث الحثیث، ص:۱۶۷، فتح الباری: ۱۱/۳۰۹