کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 20
مخالطۃ المریض بھا للصحیح سببًا لأعدائہ مرضہ ثم قد یتخلف ذلک عن سببہ کما في سائر الأسباب ففي الحدیث الأول نفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ما کان یعتقدہ الجاھل من أن ذلک یعدي بطبعہ ولھذا قال:0فمن أعدٰی الأول؟9 وفي الثاني اعلم بأن اﷲ سبحانہ جعل ذلک سببًا لذلک وحذر من الضرر الذي یغلب وجودہ عند وجودہ بفعل اﷲ سبحانہ وتعالیٰ‘‘[1] ابن حجر رحمہ اللہ کا مؤقف اور تطبیق:ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بیماری کے متعدی ہونے کی نفی کو مطلق اور عموم کے زمرے میں بیان کیا ہے اور کسی سبب کے باعث اس کے متعدی ہونے کی نفی بھی کی ہے اور اپنے موقف کی تقویت کے لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ ’’فمن أعدی الأوَّل؟‘‘کو بھی دلیل بنایا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو یہ فرمایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوسرے اونٹ کے خارش زدہ ہونے کا ذکر کیا تھا، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کوئی بیماری متعدی نہیں ہو سکتی۔جہاں تک مجذوم سے بھاگنے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا تعلق ہے تو ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بیان کو دو طرح سے احتیاط پر مبنی بتایا ہے۔ایک یہ ہے کہ کوئی شخص بیماری کے متعدی ہونے کے عقیدہ کو اختیار نہ کرے اور دوسرا یہ کہ اس بد اعتقادگی سے لوگوں میں تنگی اور حرج پیدا نہ ہو کہ وہ ایک دوسرے سے دور بھاگنے لگیں تو اسی سبب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذامی سے دور رہنے کا حکم دیا۔ ابن حجر رحمہ اللہ کی رائے ملاحظہ ہو: ’’أن نفیہ صلی اللہ علیہ وسلم للعدوٰی باق علی عمومہ،وقد صح قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ((لا یعدي شيء شیئًا9 وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم لمن عارضہ بأن البعیر الأجرب یکون في الإبل الصحیحۃ فیخالطھا فتجرب حیث رد علیہ بقولہ ((فمن أعدی الاوّل)) یعنی أن اﷲ سبحانہ وتعالی ابتدأ ذلک في الثاني کما ابتدأہ في الأول وأما الأمر بالفرار من المجذوم فمن باب سدّ الذرائع،لئلا یتفق للشخص الذي یخالطہ شيء من ذلک بتقدیر اﷲ تعالیٰ ابتداء لا بالعدوٰی المنفیۃ،فیظن أن ذلک بسبب مخالطتہ فیعتقد صحۃ العدویٰ فیقع فی الحرج، فأمر بتجنبہ حسمًا للمادۃ۔۔ واﷲ أعلم‘‘[2]
[1] مقدمہ ابن الصلاح، ص: ۱۴۳ [2] شرح نخبۃ الفکر، ص:۵۹۔۶۰