کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 19
’’لا عدوٰی ولا طیرۃ ولاھامۃ ولاصفر‘‘[1] ’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے۔‘‘ ’’فرّ من المجزوم کما تفر من الأسد‘‘[2] ’’کوڑھی سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘ ’’لا یوردن ممرض علی مصح‘‘[3] ’’بیمار اونٹ تندرست کے قریب نہ لایا جائے۔‘‘ ان اَحادیث میں بظاہر تعارض معلوم ہو رہا ہے یعنی ایک طرف تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بدشگونی اور توہم پرستی کی نفی فرما رہے ہیں کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور دوسری طرف اس کے برعکس بات بیان کی گئی ہے جس سے نہ صرف بیماری کے متعدی ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ شگون لینا بھی درست معلوم ہوتا ہے۔اس صورتِ حال میں علماے حدیث بظاہر ان متضاد البیان اَحادیث کو اس علم کے ذریعہ سے مختلف طریقوں کے ساتھ تطبیق دیتے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے: ابن صلاح رحمہ اللہ کی تطبیق:مندرجہ بالا اَحادیث میں تطبیق کے حوالے سے ابن صلاح رحمہ اللہ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بیماری کو متعدی بتانا اس لیے نہیں کہ متعدی ہونا اس بیماری کی کوئی ذاتی صفت ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ ایک فرد سے دوسرے فرد تک بیماری کے منتقل ہونے کا ایک قوی سبب مخالطت ہے جو کبھی واقع ہوتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا۔ لہٰذا اس سبب سے بچنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑھی سے بھاگنے کا حکم دیا اور یہ اَسباب اللہ ہی کی مشیت ہیں تو گویابیمار شخص یا اس کی بیماری فاعل حقیقی نہ ہوئے اور جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا تعلق ہے کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے تو یہ ایک اُصولی بات ہے جو براہِ راست عقیدئہ توحید سے متعلق ہے یعنی اس میں بھی اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فاعل حقیقی اور متصرف فی العالم اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ ابن صلاح رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’أن ھذہ الأمراض لا تعدي بطبعھا ولکن اﷲ تبارک وتعالی جعل
[1] صحیح بخاری:۵۷۵۷،صحیح مسلم:۲۲۲۰،۲۲۲۲ [2] صحیح بخاری:۵۷۰۷ [3] صحیح بخاری:۵۷۷۱