کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 17
مطلق اور مقید کی معرفت وغیرہ درایت اور مہارت کے اُمور میں سے ہیں ۔ پھر آدمی کے لیے یہی کافی نہیں کہ وہ اس علم کے فہم اور حکم کی معرفت کے بغیر صرف حدیث حفظ کرے، اس کے طرق جمع کرے اور اس کے الفاظ ضبط کرے۔‘‘ آغاز و اِرتقا اس علم کا آغاز عہد صحابہ سے ہی ہو گیا تھا، لیکن دوسرے علوم کی طرح اس عہد میں اس کے قواعد و ضوابط متعین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، البتہ علما نے بہت سارے اَحکام میں اجتہاد کیا،بظاہر باہم متعارض اَحادیث میں تطبیق دی اور ان کے مفاہیم کو واضح کیا۔ چنانچہ عجاج خطیب لکھتے ہیں : ’’وقد اھتم علماء الأمۃ بعلم مختلف الحدیث ومشکلہ منذ عصر الصحابۃ،الذین أصبحوا مرجع الأمۃ في جمیع أمورھا بعد وفاۃ الرسول فاجتھدوا في کثیر من الأحکام،وجمعوا بین کثیر من الأحادیث ووضحوھا،وبیّنوا المراد منھا،وتتالی العلماء جیلاً بعد جیلٍ،یوفقون بین الأحادیث التي ظاہرھا التعارض ویزیلون أشکال ما یشکل منھا‘‘[1] ’’علماے اُمت نے علم مختلف الحدیث پر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور ہی سے توجہ مرکوز کر دی تھی، حضو صلی اللہ علیہ وسلم ر کی وفات کے بعد وہ تمام اُمور میں اُمت کے مرجع الخلائق تھے۔ پس اُنہوں نے بہت سارے اَحکامات میں اجتہاد کیا،بہت ساری اَحادیث اکٹھی کیں ، ان کی وضاحت کی، ان کے مفاہیم بیان کیے، ایک نسل کے بعد دوسری نسل کے علما پے در پے آئے، وہ باہم متعارض اَحادیث میں موافقت پیدا کرتے رہے اور ان کے اشکالات کو زائل کرتے رہے۔‘‘ آغاز میں اس علم پر علیحدہ کتب لکھنے کا رواج نہیں تھا بلکہ علومِ حدیث کی کتب میں ہی اسے بیان کر دیا جاتا تھاجیسے امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے معرفۃ علوم الحدیث اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے الکفایۃ في علم الروایۃمیں اس فن کا ذکر کیا ہے۔اگرچہ اُنہوں نے اس کا وہ اصطلاحی نام ذکر نہیں کیا جو بعد میں مشہور ہوا۔ ان کے بعد ابن صلاح رحمہ اللہ نے اپنی معروف
[1] اُصول الحدیث، ص:۲۸۳۔۲۸۴