کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 16
امام نووی رحمہ اللہ اس علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ھذا من أھم الأنواع،ویضطر إلی معرفتہ جمیع العلماء من الطوائف، … وإنما یکمل لہ الأئمۃ الجامعون بین الحدیث والفقہ،الأصولیون والغواصون علی المعاني‘‘[1] ’’یہ اہم ترین انواع میں سے ہے۔ ہر گروہ کے تمام علماء اس کی معرفت کے حصول میں مجبور ہیں … اور اس (علم) کو صرف (وہی) ائمہ مکمل کر سکتے ہیں جو حدیث اور فقہ کے جامع ہوں ، اُصولی اور معانی کی تہہ تک پہنچنے والے ہوں ۔‘‘ محمد محمد ابوزہو اس علم کو ناگزیرقرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’کل عالم بل کل مسلم یحتاج للوقوف علیہ فإن بمعرفتہ یندفع التناقض عن کلام النبي صلی اللہ علیہ وسلم ویطمئن المکلف إلی أحکام الشرع‘‘[2] ’’ہر عالم بلکہ ہر مسلمان اس علم سے واقفیت کا محتاج ہے، کیونکہ اس علم کی معرفت سے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے تناقض اور تعارض دور ہوتا ہے اور مکلف شریعت کے اَحکام پر شرع کے بارے میں مطمئن ہو جاتا ہے۔‘‘ عجاج خطیب نے اس کی اہمیت پر جامع انداز میں کلام فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ھذا العلم من أھم علوم الحدیث یحتاج إلیہ المحدثون والفقہاء وغیرھم من العلماء ولا بد للمشتغل بہ من فھم ثاقب وعلم واسع، ودربۃ ودرایۃ … وھذا العلم ثمرۃ من ثمار حفظ الحدیث،وضبطہ وفھمہ فھمًا جدیدًا ومعرفۃ عامہ وخاصہ ومطلقہ ومقیدہ، وغیر ذلک من أمور الدرایۃ والخبرۃ، إذ لا یکفي للمرء أن یحفظ الحدیث ویجمع طرقہ ویضبط ألفاظہ من غیر أن یفھمہ ویعرف حکمہ‘‘[3] ’’یہ علم، علوم حدیث میں سے اہم ترین ہے۔ محدثین، فقہا اور دیگر علما اس کے محتاج ہیں ۔ اس فن سے منسلک آدمی کے لیے روشن فہم، وسیع علم، مہارت اور گہرا علم ضروری ہے … اور یہ علم حفظ ِحدیث کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ ہے اور اس کا ضبط اور اچھا فہم اس کے عام، خاص،
[1] التقریب، ص:۲۳ [2] الحدیث والمحدثون، ص:۴۷۱ [3] اُصول الحدیث، ص:۲۸۳۔۲۸۴