کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 14
صورت میں بھی تعارض نہیں ہو سکتا، اگرچہ ظاہراً وہ متعارض نظر آ رہی ہوں ۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’متی عُلِم أن قولین ظاہرھما التعارض ونفي أحدھما لموجب الآخر أن یحمل النفي والإثبات علی أنھما في زمانین أو فریقین أو علی شخصین،أو علی صفتین مختلفین ھذا ما لابد منہ مع العلم بـإحالۃ مناقضتہ علیہ السلام في شيء من تقریر الشرع والبلاغ‘‘[1] ’’جب یہ معلوم ہو جائے کہ دو قول جو کہ ظاہراً متعارض ہیں اور ان (دونوں ) میں سے ایک کی نفی دوسرے کے وجود کو لازم ہے تو نفی اور اثبات کو اس طرح محمول کیا جائے گا کہ وہ دو (مختلف) زمانوں یا گروہوں یا دو شخصیات یا دو (الگ الگ) صفتوں کے بارے میں ہے اور اس کے ساتھ لازمی طور پر یہ علم ہونا ضروری ہے کہ شریعت و ابلاغ کی تشریح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات میں تناقض کا پایا جانا محال ہے۔‘‘ اسی طرح ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لا أعرف أنہ روي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم حدیثان بـإسنادین صحیحین متضادان،فمن کان عندہ فلیأتني لأؤلف بینھما‘‘[2] ’’میں نہیں جانتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دو اَحادیث صحیح سند کے ساتھ مروی ہوں (اور وہ) متضاد ہوں ، جس کے پاس ہوں تو وہ میرے پاس لائے، میں ان کے درمیان تطبیق دیتا ہوں ۔‘‘ شرائط مختلف الحدیث بیان کردہ تمام تعریفوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کوئی حدیث اس وقت تک علوم حدیث کی اس قسم میں شمار نہیں کی جائے گی جب تک اس میں درج ذیل چار شرائط نہ پائی جائیں : ۱ حدیث مقبول ہو۔ ۲ جس حدیث سے اختلاف ہے وہ دوسری حدیثہو جو پہلی حدیث کے ساتھ ظاہراً متعارض ہو۔ایسی اَحادیث اور آثار کو ’مختلف الحدیث‘ میں شمار نہ کیا جائے گا جن کا پہلا حصہ دوسری
[1] الکفایۃ في علم الراویۃ،ص:۴۳۳ [2] مقدمہ ابن الصلاح، ص:۱۴۳؛ الکفایہ، ص:۴۳۳،توجیہ النظر إلی أصول الأثر، ص:۲۲۴