کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 13
’’ھو العلم الذي یبحث في الأحادیث التي ظاہرھا متعارض،فیزیل تعارضھا أو یوفق بینھا،کما یبحث في الأحادیث التي یشکل فھمھا أو تصورھا،فیدفع إشکالھا ویوضح حقیقتھا‘‘[1]
’’یہ وہ علم ہے جس میں بظاہر متعارض احادیث کے بارے میں بحث کی جاتی ہے، پس ان کے تعارض کو دور کیا جاتا ہے یا ان کے درمیان مطابقت پیدا کی جاتی ہے، علاوہ ازیں ان اَحادیث کے متعلق بحث کی جاتی ہے جن کا فہم و تصور مشکل ہوتا ہے پس یہ علم ان کے اشکال کو دور اور ان کی حقیقت واضح کرتا ہے۔‘‘
عصر حاضر میں علوم الحدیث پر لکھنے والے معروف ڈاکٹر محمود طحان مختلف الحدیث کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں :
’’ھو الحدیث المقبول المعارض بمثلہ مع إمکان الجمع بینھما أي ھو الحدیث الصحیح أو الحسن الذی یجيء حدیث آخر مثلہ في المرتبۃ والقوۃ ویناقضہ في المعنیٰ ظاہرًا،ویمکن لأولي العلم والفھم ثاقب أن یجمعوا بین مدلولیھما بشکل مقبول‘‘[2]
’’ایسی مقبول حدیث جو اپنے جیسی کسی دوسری حدیث سے متعارض ہو، لیکن ان دونوں کو جمع کرنا ممکن ہو۔یعنی وہ کوئی ایسی حدیث صحیح یا حسن ہو جو اپنے ہم مرتبہ کسی دوسری حدیث سے معنوی طور پر بظاہر متعارض نظر آتی ہو اور اہل علم و فہم کے لیے ممکن ہو کہ وہ دونوں کے مفاہیم میں ایسی صورت میں یکسانیت پیدا کریں جو قابل قبول ہو۔‘‘
ظاہر تعارض کی وضاحت
اِن تمام تعریفات میں اَحادیث کے باہمی تعارض کو ظاہر کے ساتھ اس لیے مشروط کیا گیا ہے کہ سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حقیقی تعارض محال ہے، جیسا کہ ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وکل خبرین عُلِم أن النبي تکلّم بھما فلا یصح دخول التعارض فیھما علی وجہ،وإن کان ظاہرھما متعارضین‘‘
’’ہر وہ دو خبریں ، جن کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیان فرمایا ہے تو ان میں کسی
[1] اُصول الحدیث، ص:۲۸۳
[2] تیسیر مصطلح الحدیث، ص:۵۵