کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 12
امام نووی رحمہ اللہ اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں :
’’أن یاتي حدیثان متضادان في المعنی ظاہرًا،فیوفق بینھما أو یرجح أحدھما‘‘[1]
’’ظاہری معنی کے اعتبار سے دو متعارض حدیثیں آ جاتی ہیں تو پھر ان دونوں کے درمیان تطبیق دی جاتی ہے یا دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘‘
طیبی رحمہ اللہ ، ابن ملقن رحمہ اللہ ، محمد بن محمد علی فارسی رحمہ اللہ اور محمد بن علوی مالکی حسنی رحمہ اللہ نے بھی اس علم کی یہی تعریف کی ہے جب کہ قاضی محمد بن محمد شہبہ رحمہ اللہ نے اس میں تھوڑا سا اِضافہ بھی کیا ہے۔[2]
ابنِ حجر رحمہ اللہ اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’فإن أمکن الجمع فھو مختلف الحدیث‘‘[3]
’’پس اگر (دو حدیثوں کا) جمع کرنا ممکن ہو تو وہ مختلف الحدیث ہے‘‘۔
نواب صدیق حسن قنوجی رحمہ اللہ اس کی تعریف اور ایسی اَحادیث میں تطبیق کی وضاحت کرتے ہوئے اس طرح رقم طراز ہیں :
’’ھو علم یبحث فیہ عن التوفیق بین الأحادیث المتنافیۃ ظاہرًا،إما بتخصص العام تارۃ أو بتقیـید المطلق أخرٰی،أو بالحمل علی تعدد الحادثۃ إلی غیر ذلک من وجوہ التاویل‘‘[4]
’’یہ ایک ایسا علم ہے جس میں ظاہراً ایک دوسرے کے مخالف اَحادیث کے مابین تطبیق دینے کے بارے میں بحث کی جاتی ہے، کبھی عام کو خاص یا کبھی مطلق کو مقید کے ساتھ تطبیق دی جاتی ہے یا بسا اوقات کسی واقعہ کو کئی مرتبہ وقوع پذیر ہونے پر محمول کیا جاتا ہے یا پھر تاویل کی دیگر وجوہات میں سے کسی وجہ کے ذریعے تطبیق دی جاتی ہے۔‘‘
عجاج خطیب اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں :
[1] التقریب فن اصول الحدیث، ص: ۲۳
[2] الخلاصہ فی اصول الحدیث، ص:۵۹؛المقنع فی علوم الحدیث:۲/۴۸۰؛جواہر الاصول فی علم حدیث الرسول، ص:۴۰؛ المنہل اللطیف فی أصول الحدیث الشریف، ص:۵۲
[3] شرح نخبۃ الفکر، ص:۵۹
[4] أبجد العلوم: ۲/۱۷۲