کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 11
ذریعے ان کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے۔اُصولِ حدیث کی کتابوں میں اس علم کے لیے کچھ دوسرے نام بھی ملتے ہیں :مثلاً تلفیق الحدیث،[1] اختلاف الحدیث، [2]تاویل مختلف الحدیث، [3]تأویل مشکل الحدیث،[4] مناقضۃ الاحادیث وبیان محامل صحیحہا، [5]مشکل الحدیث[6] اور تاویل الحدیث[7] وغیرہ
لغوی مفہوم
لغت میں لفظ ’مختلف‘ اختلاف اور التخالف سے ماخوذ ہے جو اتفاق کی ضد ہے۔
فیروز آبادی لکھتے ہیں : ’’واختلف: ضدّ اتفق‘‘[8]
ابن منظور لکھتے ہیں :
’’تخالف الأمران،واختلفا: لم یتفقا،وکل ما لم یتساوي فقد تخالف واختلف‘‘[9]
’’دو معاملے آپس میں ایک دوسرے کے ناموافق ہو گئے اور مختلف ہو گئے یعنی متفق نہ ہو سکے، اسی طرح ہر وہ چیز جو برابر نہ ہو، تو وہ مختلف ہوتی ہے۔‘‘
اِصطلاحی مفہوم
اِصطلاح میں اس علم سے مراد دو ایسی مقبول احادیث ہیں جو بظاہر باہم متعارض ہوں ، لیکن ان میں تطبیق ممکن ہو، چنانچہ ابنِ صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’أن یمکن الجمع بین الحدیثین ولا یتعذر إبداء وجہ ینفي تنافیھما، فیتعین حینـئذ المصیر إلی ذلک والقول بھما معًا‘‘[10]
’’دو حدیثوں کے مابین جمع (یعنی تطبیق) ممکن ہو اور کسی ایسی وجہ کا ظاہر ہونا مشکل نہ ہو جو دونوں حدیثوں کی باہمی مخالفت کی نفی کر دے، تو ایسی صورت میں تطبیق دینا طے شدہ امر ہے اور فتویٰ ان دونوں پر مبنی ہو گا۔‘‘
[1] مفتاح السنۃ،ص:۱۵۹،أبجد العلوم للقنوجي:۲/۱۷۲،اُصول الحدیث علومہ ومصطلحہ از عجاج،ص:۲۸۳،الرسالۃ المستطرفۃ للکتاني، ص:۱۲۹
[2] مفتاح السنۃ،ص:۱۵۹،أبجد العلوم للقنوجي:۲/۱۷۲،اُصول الحدیث علومہ ومصطلحہ از عجاج،ص:۲۸۳،الرسالۃ المستطرفۃ للکتاني، ص:۱۲۹
[3] مفتاح السنۃ،ص:۱۵۹،أبجد العلوم للقنوجي:۲/۱۷۲،اُصول الحدیث علومہ ومصطلحہ از عجاج،ص:۲۸۳،الرسالۃ المستطرفۃ للکتاني، ص:۱۲۹
[4] مفتاح السنۃ،ص:۱۵۹،أبجد العلوم للقنوجي:۲/۱۷۲،اُصول الحدیث علومہ ومصطلحہ از عجاج،ص:۲۸۳،الرسالۃ المستطرفۃ للکتاني، ص:۱۲۹
[5] مفتاح السنۃ،ص:۱۵۹،أبجد العلوم للقنوجي:۲/۱۷۲،اُصول الحدیث علومہ ومصطلحہ از عجاج،ص:۲۸۳،الرسالۃ المستطرفۃ للکتاني، ص:۱۲۹
[6] مفتاح السنۃ،ص:۱۵۹،أبجد العلوم للقنوجي:۲/۱۷۲،اُصول الحدیث علومہ ومصطلحہ از عجاج،ص:۲۸۳،الرسالۃ المستطرفۃ للکتاني، ص:۱۲۹
[7] مفتاح السنۃ،ص:۱۵۹،أبجد العلوم للقنوجي:۲/۱۷۲،اُصول الحدیث علومہ ومصطلحہ از عجاج،ص:۲۸۳،الرسالۃ المستطرفۃ للکتاني، ص:۱۲۹
[8] القاموس المحیط: ۲/۱۰۸۶۔۱۰۸۷
[9] لسان العرب: ۹/۹۱
[10] مقدمہ ابن الصلاح،ص: ۱۴۳