کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 10
حدیث وسنت ظل ہما احسن فاروقی٭
علم مختلف الحدیث؛ایک تحقیقی مطالعہ
علومِ حدیث کی اقسام و انواع بہت زیادہ ہیں ۔ متقدمین میں سے حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے معرفۃ علوم الحدیث میں ۵۲، ابن صلاح رحمہ اللہ نے مقدمۃ ابن الصلاح، امام نووی رحمہ اللہ نے التقریب في أصول الحدیث اور ابن ملقن رحمہ اللہ نے المقنع في علوم الحدیث میں ۶۵ اوراما م جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ۹۳ علومِ حدیث ذکر کیے ہیں ۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ سے ان کی بابت منقول ہے:
’’اعلم أن أنواع علوم الحدیث کثیرۃ لا تُعدّ ‘‘[1]
’’ علومِ حدیث کی انواع بہت زیادہ ہیں ، جن کو گنا نہیں جا سکتا۔‘‘
حازمی رحمہ اللہ اس حوالے سے یوں رقم طراز ہیں :
’’علم الحدیث یشمل علی أنواع کثیرۃ تبلغ مائۃ،کل نوع منھا علم مستقل،لو أنفق الطالب فیہ عمرہ ما أدرک نہایتہ‘‘[2]
’’ علم حدیث کی سو تک اقسام ہیں ، ہر نوع ایک مستقل علم ہے اور اگر کوئی طالب علم اپنی پوری عمر ایک علم میں کھپا دے، تب بھی اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
انہی اَنواع میں سے ایک اہم نوع ’علم مختلف الحدیث‘ ہے۔ اس علم کا تعلق متن حدیث سے ہے۔اس میں صرف ان اَحادیث کو زیر ِ بحث لایا جاتا ہے جو درجہ کے اعتبار سے مقبول ہوں اور جن میں تضاد اور تناقض کا پایا جانا صرف ظاہراً ہو، چنانچہ اَحادیث کے اس ظاہری تعارض کو رفع کرنے کے لیے اس علم کے مختلف اُصول و قواعد کو بروئے کار لاتے ہوئے باہم جمع و تطبیق سے کام لیا جاتا ہے۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر ناسخ و منسوخ یا وجوہاتِ ترجیح کے
[1] ٭ ایم فل علوم اسلامیہ [ 2006۔2008ء] ، شیخ زایداسلامک سنٹر ، جامعہ پنجاب لاہور
تدریب الراوی شرح تقریب النواوی ازالسیوطی،ص:۲۲
[2] ایضاً