کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 9
روپے جرمانہ پراکتفا کیا تو دوسری طرف عافیہ صدیقی کے کیس میں امریکی جج نے رحم کی ہر اپیل مسترد کرتے ہوئے عافیہ کےلئے سزا کے ایسے ایسے ہتھکنڈے اختیارکئے کہ زیادہ سے زیادہ ہرممکن سزا اس کو مل کر رہے ۔ امریکہ کے شدید متعصب جج نے یہ قرار دیا کہ ’’عدالتوں کا مقصد امریکی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ملکی وقار کو بلند کرنا ہوتا ہے اور اگر عافیہ صدیقی کو معمولی رعایت دی جاتی ہے تو گویا عدالت اپنے فرائض سے کما حقہ سبک دوش نہیں ہورہی اور امریکی عوام کی حفاظت نہیں کررہی۔‘‘اس بنا پر عافیہ کیس میں ہرہرجرم کی علیحدہ علیحدہ مستقل سزا مقرر کی گئی حتیٰ کہ تفتیش کے چار سالوں کو بھی تما م جرائم کی مستقل سزاؤں سے بالا تر رکھا گیا۔اور یہ سب ایسی صورتحال میں کیا گیا جب کہ عافیہ صدیقی پر جرم ہی قانونی طورپر ثابت شدہ نہیں ، وہ گولی چلانے سے منکر ہے اور اس کی گولی سے کسی کو نقصان تک نہیں پہنچا۔ زندہ قومیں اپنے قومی وقار واعتماد اور اپنے باشندوں کے تحفظ کے لئے آخری دم تک اپنی ذمہ داری نبھاتی ہیں ، تب اُن کے شہری قانون کی پاسداری کرتے ہیں ۔ آج پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں کس اخلاقی معیارکی بنا پر دیگر مجرموں کے خلاف قانونی اقدام کرسکتی ہیں ، جبکہ یہی پاکستانی قانون امریکی ایجنٹوں اور طاقتوروں کے لئے موم کی ناک اورکھیل تماشا ہے اور غریب اگر شکنجے میں آجائے تو اس کے لئے طوفان اور لوہے کی گرفت ہے! اس کے بعد بھی اہل پاکستان ، اپنے اوپر مسلط حکمرانوں اور ان کے اہداف کو جاننے میں غلطی کرتے ہیں اور اُنہیں اپنا محافظ اور خیرخواہ خیال کرتے ہیں تو ان کی معصومیت قربان جانے کے لائق ہے۔ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور ہمیں دھوکے سے باہر آجانا چاہئے ، بالخصوص میڈیا کے ان دانشوروں[1] سے بھی جو قوم کو مغالطہ آرائی کی نذر کرنے اور غلامی کی زندگی بتانے پر مصر نظر آتے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں کو اسلام دشمنوں کی نازبرداریاں مبارک اور عوام کو اُن کی معصومیت!.... پھر شکوہ کس سے اور اِلتجا کس کے پاس!! ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
[1] جو انسان ایسے دانش بازوں سے عبرت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اسی موضوع پر نذیر ناجی کے ہر دو اتواروں:20 اور 27 مارچ 2011ء کو’جنگ‘ میں سب سے اوپر شائع ہونے والے کالم پڑھ لے۔