کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 80
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ تمام تر علمی و عملی صفاتِ حمیدہ اور مرنجان مرنج طبیعت واَخلاق و اقدار کے اعمالِ صالح کو قبول و منظور فرماکر ان کی مغفرت فرمائے اور احباب وپس ماندگان کو صبر و حوصلہ کی توفیق بخشے۔ آمین! بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ! مرکزی جمعیۃ اہلحدیث کے ناظم تعلیمات مولانا محمد اعظم رحمۃاللہ علیہ کی اچانک وفات پر بےحد صدمہ ہوا۔ ’انا للہ وانا إلیہ راجعون‘ وہ ہمارے شہر کے بزرگ علماء کرام میں سے تھے اور دینی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔معتدل اور متوازن مزاج کے بزرگ تھے اور اُنہیں شہر کے تمام مکاتبِ فکر میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ میرا اُن سے کم و بیش ربع صدی تک دینی تحریکات کے حوالہ سے تعلق رہا، جب بھی اُنہیں کسی اجتماعی مسئلہ کی طرف توجہ کی دعوت دی گئی ،اُنہوں نے بھرپور توجہ سے نوازا، حوصلہ افزائی کی اور تعاون فرمایا۔ وہ بھی ہر اہم موقع پر یاد کرتے تھے او رہماری حاضری اور شرکت پر خوش ہوتے تھے۔ ضلعی امن کمیٹی میں ان کے ساتھ رفاقت رہی۔ حق کے اظہار کے ساتھ ساتھ متنازعہ معاملات کو خوش اُسلوبی کے ساتھ سلجھانے کاذوق رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں مکمل تعاون کرتے تھے۔ بیسیوں پبلک اجتماعات میں ان کے ہمراہ شرکت کا موقع ملا۔ شعلہ نوا خطیب تھے اور ان کی گفتگو جوش و جذبہ کے ساتھ دلائل سے بھی مزین ہوتی تھی، ابھی چند روز قبل 26 فروری کو ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں محکمہ اوقاف کے زیراہتمام ڈویژنل سیرت کانفرنس میں ہم اکٹھے شریک ہوئے او رکافی دیر ایک ساتھ بیٹھے رہے۔ اہلحدیث علماے کرام میں حضرت مولانا حکیم عبدالرحمن آزاد رحمہ اللہ کے بعد دینی تحریکات کے بارے میں ہم زیادہ تر انہی سے رجوع کرتے تھے او راُنہوں نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ میں ذاتی طور پر ان کی وفات پر ایک بزرگ دوست اور گرم جوش ساتھی کی جدائی کا غم محسوس کرتا ہوں اور دُعاگو ہوں کہ اللہ رب العّزت اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان،تلامذہ اور احباب کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین یا ربّ العالمین! ابوعمار زاہد الراشدی خطیب مرکزی جامع مسجد،گوجرانوالہ