کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 79
مرکزی جمعیت اہل حدیث کے عاملہ وشوریٰ اور کابینہ کے اجلاسوں کے مولانا محمد اعظم روح رواں ہوتے، ان کی تجاویز و آراء اور مدلّل بحث و گفتگو کو بڑی وقعت حاصل ہوتی۔ پروفیسرساجد میرصاحب کے وہ قریبی اورمخلص رفقا میں سے تھے۔کہتے ہیں کہ؏ یادیں کبھی محو نہیں ہوتیں ، بس اوجھل ہوجاتی ہیں !! گوجرانوالہ میں سرکاری اور غیر سرکاری نیز تمام مکاتب ِفکر کے اہم مشترکہ پروگراموں میں ان کانمایاں کردار ہوتا اور اس سلسلہ میں ان میں کوئی مداہنت یا مصلحت آڑے نہ آتی۔ مسلک کی بھرپور او رکھلم کھلا نمائندگی کا کمال حق ادا کرنا ان کا فرضِ اوّلین ہوتا۔ فیصل آباد میں منٹگمری بازار کی سالانہ عظیم الشان خلافتِ راشدہ کانفرنس اور جامع اہل حدیث امین پورہ کی سالانہ سیرت کانفرنس میں کئی مرتبہ ان کی شعلہ نوا تقریروں سے سامعین محظوظ ہوئے۔ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں بحیثیت ِمرکزی ناظم تعلیمات جب بھی وہ تشریف لاتے،طلبہ کو تربیتی انداز میں خطاب فرماتے اور جماعت کے مرحوم اکابرین کے تذکرہ سے طلبہ میں ایک ولولہ پیدا کردیتے۔ مولانا محمد اعظم بلاشبہ ہمہ صفات شخصیت تھے جن کی تدریسی و تبلیغی اور مرکزی سطح کی خدماتِ جلیلہ کی تفصیلات کے لیے ایک مستقل کتاب چاہیے۔خطابت وتعلیمات کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ جماعتی رسائل میں ان کے معلوماتی مضامین اکثر شائع ہوتے رہتے جنہیں وہ افادۂ عام کے لیے پمفلٹ کی شکل دے دیتے۔ اہم اوروقت کے ضروری اَحوال و مسائل پر ان کے تحقیقی مقالے اگر یکجا کردیئے جائیں تو وہ نوجوان علما کے لیے انتہائی راہنما اور سبق آموز ثابت ہوسکتے ہیں ۔ہمیں توقع ہے کہ ان کے لائق بیٹے اور شاگردوں کاوسیع حلقہ اس پہلو پر ضرور توجہ دے گا۔ تحریک ِختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کا مقامی طور پر امتیازی رول ایک علیحدہ باب ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے مولانا محمداعظم علیہ الرحمہ فالج کے حملہ کے بعد وہ پہلی سی قوت وتوانائی تو نہ رکھتے تھےتاہم دین حق کی تبلیغ و دعوت کی والہانہ تڑپ اور اس سلسلہ کے مقامی وبیرونی پروگراموں میں شرکت کے لیے ہمہ وقت وہ تیار رہتے۔مرکزی جمعیت کے اجلاسوں میں شمولیت لازمی سمجھتے اور ان کی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیتے۔