کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 78
پاس زیادہ علالت کی وجہ سے صاحبِ فراش تھے، علاج معالجہ جاری تھا مگر اب معلوم ہوگیا تھا کہ دوراہے پہ ہے کارواں زندگی کا !! بالآخر وقتِ معیّن پر اپنے ربّ کے حضور جا پہنچے: اللهم اغفر لـه وارحمـه ........٭ ........٭ ........ ثانی الذکر ہمارے دیرینہ دوست مولانا محمد اعظم رحمۃاللہ علیہ کی رحلت کی اچانک خبر ہم پربجلی بن کر گری۔ 15/مارچ 2011ءکی شام لاہور میں متحدہ علما بورڈ ،پنجاب کے اجلاس کے موقع پر پروفیسرعبدالرحمٰن صاحب لدھیانوی نے بتایاکہ آج بعد نمازِ ظہر گوجرانوالہ میں مولانا محمد اعظم وفات پاگئے ہیں۔ إنا لله وإنا إليه راجعـون! اُنھوں نے معمول کے مطابق اَسباق پڑھائے ،جن کی چند ساعتوں کے بعد دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور وہ مرکز سے لے کر گوجرانوالہ تک کو رنج و ملال میں مبتلا کرگئے۔ مولانا مرحوم لڑکپن کے زمانہ میں ہماری طرح گوجرانوالہ میں اہل حدیث نوجوانوں کی تنظیم شبان اہل حدیث کے سیکرٹری جنرل اور شیخ محمد یوسف وان سوتڑی والے صدر ہوا کرتے تھے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کی سالانہ کانفرنسوں کے موقعوں پر انتظام و انصرام کے بہت سے اُمور شبان نوجوان انجام دیتے تھے۔ مرکزی جمعیت کی سرپرستی میں اگرچہ اس تنظیم کادائرہ کار ملک بھر میں تھا، لیکن لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کی تنظیمیں نسبتاً زیادہ فعال اور سرگرم تھیں جس کی ایک وجہ ان اَضلاع میں جماعتی افراد کی کثرت اور مالی وسائل کی فراوانی تھی۔ مولانا محمداعظم میں اپنے بلند مرتبت اَساتذہ حضرت حافظ محمد گوندلوی، حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی اور حضرت مولانا محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہم سے شرف ِتلمّذ اور فیوض کی بیشتر علامتیں پائی جاتی تھیں ۔حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ کی طرح تدریسی مہارت،وسیع مطالعہ اور حضرت مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ کی طرح خطابت وتقریر کی جولانیاں اور بصیرت وسیاست، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ کی طرح قیادت و سیادت کی جولانیاں اپنے میں وہ لئے ہوئے تھے۔ جامعہ اِسلامیہ آبادی حاکم رائے کی مسندِ تدریس میں ان کی سج دھج اور جماعتی و مسلکی اسٹیج پر ان کی جلوہ افروزی رونقوں کو دوبالا کرتی۔