کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 77
اشرف رحمہ اللہ کے پاس یا حاجی غلام محمد رحمہ اللہ کے مکان پر ہوتا۔ گاہے بگاہے یہ سعادت ہمارے غریب خانہ کے حصے میں بھی آجاتی۔ والد علیہ الرحمہ ان کی دل و جان سے خدمت کرتے اور دعائیں لیتے۔ صوفی صاحب رحمہ اللہ کی پارسائی، زہد و تقویٰ اور ذکر و اذکار کی محفلیں جن لوگوں نے دیکھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ مستجاب الدعوات ہونے کا شرف بھی اُنہیں حاصل تھا۔ مولانا ندوی بھی اپنے آپ کو صوفی صاحب کی دعاؤں کا ثمرقرار دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں دینی و دنیوی روایتوں سے مالا مال کیا ہوا تھا۔مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نظام سے وہ شروع روز سے وابستہ رہے اوراس کی تنظیمی وسعت کا بڑا درد رکھتے۔ مولانا عبدالقادر ندوی رحمہ اللہ کی زبان میں مٹھاس و ملائمت کے ساتھ مزاج اور خوش طبعی بھی تھی۔ بےحد سادہ مناسب لباس اور تکلّف و تصنع سے کوسوں دُور تھے، علم و فضل کے بلند مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود وہ ایک کارکن او رمحنت و محبت سے بھرے صاف ستھرے انسان تھے۔ موّرخ جماعت مولانا محمد اسحٰق بھٹی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں نے پہلے پہل جب مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ سے ان کا تعارف کرایا او رکہا کہ ’’یہ ہیں مولانا عبدالقادر ندوی آف ماموں کانجن‘‘ تو مولانا محمد حنیف فرمانےلگے ’’یہ ندوی کم لگتے ہیں او رعبدالقادر زیادہ‘‘ واقعی ندویوں کا بانکپن، ان کی تہذیب و تمدن ،چہرہ مہرہ او رلباس و اَطوار کے کوئی آثار مولانا عبدالقادر میں نہ تھے۔البتہ دارالعلوم ماموں کانجن کا یہ مقام کہ مدارسِ دینیہ میں ایک امتیاز اور علمی اعتبار اُن کی بہت بڑی دینی و ملی خدمت ہے۔ چند ماہ قبل دارالعلوم کے صدر ہمارے دوست مولانا حافظ مقصود احمد مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ انجمن کے اراکین کا یہ انتخاب بلاشبہ حسنِ انتخاب ہے۔ حضرت صوفی صاحب کی دعائیں اور مولاناندوی کی شفقتیں اُنہیں کندن بناگئی ہیں ۔ دارالعلوم سے اُنہیں جو والہانہ عقیدت اور مخلصانہ جذبۂ خدمت ہے، یقیناً ان کا وہ بہتر سےبہتر استعمال عمل میں لائیں گے۔ مولانا عبدالرشید حجازی او رمولاناریاض قدیر جیسےنوجوانوں کی رفاقت سے وہ جامعہ کی علمی حیثیت کودن بہ دن نکھارتے چلے جائیں گے۔ اِن شاء اللہ! مولانا عبدالقادر ندوی چند ہفتوں سے فیصل آباد میں اپنے صالح فرزندوں اور بھتیجوں کے