کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 76
یادِ رفتگاں مولانامحمدیوسف انور
مولانا عبد القادر ندوی رحمہ اللہ اور مولانا محمد اعظم رحمہ اللہ کا اِنتقالِ پرملال
ماہ ِمارچ پہلے ہی بڑی تلخ یادیں لے کر آتا ہے،لیکن اس بار مزید اِضافے کے ساتھ شهر الحزنبن کر بھی آیا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہےکہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ عربی کے کسی شاعر نے سچ ہی کہا ہے ؏
لوکان في الدنیا بقاء لِساکن لکان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فیها مخلدًا
’’یعنی اگر دنیا میں کسی کو ہمیشہ رہنا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رہتے۔ ‘‘
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی 63 سالہ زندگی گزارکر راہئ ملك ِبقا ہوئے.... رہے نام اللہ کا!
بعض اَموات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی یادیں مدتوں باقی رہتی اور بھلانے سےبھی بھلائی نہیں جاسکتیں ؛ مولانا عبد القادر ندوی رحمہ اللہ اور مولانا محمد اعظم رحمہ اللہ بھی انہی پاکباز شخصیتوں میں سے تھے جن کا یکے بعد دیگرے انتقال پوری جماعت کو غم ناک کرگیا !!
اوّل الذکر ہمارے بزرگ دوست مولانا عبدالقادر ندوی اگرچہ 90 کے پیٹے میں تھے مگر جسمانی لحاظ سے کمزور اور روحانی لحاظ سے جواں سال لگتے تھے۔ مردِ باصفا اور ولی اللہ ہستی حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے دستِ راست اور اُن کی وفات کے بعد حقیقی جانشینی کا حق اُنہوں نے تاحین حیات اَدا کیا۔ حضرت صوفی صاحب کی ہمراہی میں اوڈانوالہ او رپھر ماموں کانجن میں دارالعلوم کی عمارات و تعلیمات اور تمام شعبوں کی ترقیات کےلیے اُنہوں نےشب و روز ایک کیے رکھا۔ برسوں کی بات ہے،حضرت صوفی صاحب کی معیت میں وہ ماہ رمضان المبارک میں مسجد رحمانیہ، مندرگلی میں ڈیرے ڈال دیتے۔ نہ کسی دکان پر جانے کی ضرورت اور نہ ہی کسی سے چندہ مانگنے کی حاجت، بس شہر اور مضافات سے لوگ کھنچے چلے آتے، صوفی صاحب کی جھولیاں نوٹوں سے بھری دیکھی جاتیں اورمولانا عبدالقادر ندوی رسیدات لکھتے لکھتے تھک جاتے۔ تین چار روز قیام رہتا، راتوں کا قیام مولانا حکیم عبدالرحیم