کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 75
کردہ دولت حتیٰ کہ اطرافِ عراق کی زمینوں میں سے بھی اہل یمن کے لیے حصہ مقرر کیا۔ شریعت کی اسی تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے بتائیے کہ ملت اسلامیہ کے علاقوں میں زیر زمین پائی جانے والی اس وافر دولت اور قدرتی وسائل کے اس عظیم ذخیرے کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے؟ کیا پوری اُمت ان وسائل پر حق نہیں رکھتی؟
لیکن افسوس کہ اہل مغرب کی استعماری سیاست نے ہمیں وطنی ریاستوں National Statesمیں تقسیم کرکے پہلے اس اُمت کو کمزور کیا۔ پھر انہوں نے چوریوں ، ڈاکوں کے ذریعے اس نحیف و ناتواں اُمت کے سرمایہ کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا او ربچے کھچے مال پر رسہ کشی کرنے کے لیے مسلمانوں پر مسلط حکمرانوں کو آزاد چھوڑ دیا۔ یقیناً یہ تاریخ انسانی میں غیر منصفانہ تقسیم اموال کی بدترین مثال ہے۔
اللہ ربّ العزت کےعطا کردہ یہ بیش بہا وسائل ہم سے ضائع ہونے کے نہایت خطرناک نتائج برآمد ہوئے۔ ہمیں اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی سبھی میدانوں میں انتہائی تباہ کن اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔بلاد اسلامیہ میں اسلام کے فروغ کے لئے اموال کی کمی کا رونا رویا گیا اور ہم پر مال ودولت کے ذریعے مغرب کی کافر انہ تہذیب مسلط کردی گئی۔مسلمانوں کے انہی رہن شدہ اموال کو قرضوں کی صورت میں ہمیں دے کر، اہل مغرب نے ہم پر اپنی پالیسیاں مسلط کیں ۔ اللہ نے تو ملت ِاسلامیہ کو اموال وسائل سے کبھی محروم نہ کیا بلکہ سب سے بڑھ کر دیا، لیکن ہماری کوتاہیاں اور ہمارے حاکموں کی عیاشیاں امت کے لئے ذلت ورسوائی کو عام کر گئیں ۔اپنے اَموال کے ضیاع اور غیروں کے دست ِنگر ہونے کا نتیجہ خلافت ِاسلامیہ کو کھونے کی شکل میں بھی برآمد ہوا۔ پھر خلافت سے محرومی کے سبب ہماری دنیا بھی ہاتھوں سے جاتی رہی او رہرمیدان میں اہل اسلام کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ یہاں تک کہ مسلمان بالعموم ظلم و جبر، ذلت و نکبت، خوف و افلاس او رطرح طرح کی بیماریوں میں گھر کر رہ ذگئے۔
[2004ءمیں لکھا جانے والا مضمون جس میں ان سات سالوں میں بہت سا اضافہ ہوچکا !!]