کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 74
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف کچھ اور تھا۔ اس کے بارے میں درج ذیل آثار ملاحظہ کیجئے:
عن أسلم قال: سمعت عمر یقول: أجمعوا لهذا المال، فانظروا لمن ترونه وإني قد قرأت آیات من کتاب الله، سمعت الله یقول: ﴿ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى ﴾ إلىٰ قوله ﴿ وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ والله! ما من أحد من المسلمین إلا وله حق في هٰذا المال أعطی منه أو منع حتی راع بعَدن
... فقد فکر رضی الله عنه في ﴿ وَ الَّذِيْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾، وقال رضی الله عنه: "والله لئن بقیت لهم لیأتین الراعي بجبل من صنعاء حظه من هذا المال وهو یرعی مکانه"
... وقال رضي الله عنه: "ما علىٰ وجه الأرض مسلم إلا وله في هذا الفيء حق أعطیه أو منعه إلّا ما ملکت أیمانکم" [کنز العمال: 11547]
’’جناب اسلم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتےسنا کہ: ’’(آؤ!) اس مال (کی تقسیم) کے حوالے سے اکٹھے ہوجاؤ او راپنی رائے دو کہ اسے کن میں تقسیم کرنا چاہیے؟ اور میں نے تو کتاب اللہ کی وہ آیات پڑھ رکھی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : جو (مال بطورِ فے) اللہ بستی والوں سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹادے) سے لے کر ( او روہ لوگ جو اُن کے بعد آئے، اُن کا بھی اس مالِ فے میں حق ہے) اللہ کی قسم !اس مال میں ہر ایک مسلمان کا حق ہے، حتیٰ کہ اس چر واہے کا بھی جو عدن (یمن) میں رہتا ہے۔ چاہے اسے دیا جائے یااس سے روک لیا جائے۔‘‘
..... آپ رضی اللہ عنہ نے آیت کے ٹکڑے ’’اور وہ لوگ جو اُن کے بعد آئے‘‘ کےبارے میں سوچا اورپھر فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اگر میں باقی رہا تو صنعا کے پہاڑوں سے میرے پاس ایک چرواہا آئے گا اور اس مال میں اس کا بھی حق ہوگا چاہے وہ محض انہی (دور دراز) پہاڑیوں میں بکریاں ہی چراتا ہو (اور جہاد وغیرہ میں شرکت نہ کرتا ہو)۔‘‘
..... اور آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: قطعہ زمین پر رہنے والے ہر مسلمان کا اس مالِ فے میں حق ہے، چاہے اسے دیا جائے یاروک لیا جائے، سوائے غلاموں او رلونڈیوں کے‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بطورِ مثال فتح عراق سے حاصل شدہ مال میں یمن کے رہنے والے فقیر کا بھی حق بیان کیا حالانکہ یمن مفتوحہ عراق سے بہت دور تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بیت المال میں داخل