کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 73
پھر بعض مسلم ممالک کی عمومی غربت کے باوجود، ان پر قابض طبقے کی حالت یہ ہے کہ محض ان کے گھر ہی کروڑوں ڈالر مالیت کے ہیں جبکہ بعض گھروں کی قیمتیں اس سے بھی تجاوز کرجاتی ہیں ۔ ان کےگھروں کاشمار دنیاکے مہنگے ترین گھروں میں ہوتا ہے جبکہ ان کی رعایا کی اکثریت بے روزگار اور بھوکوں مررہی ہے۔ افسوس صد افسوس!
اُمت کے مال میں تمام مسلمانوں کا حق ہے!
اُمت ِمسلمہ کے سرمایہ میں تمام مسلمان حصہ دار ہیں ۔ ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے دین کی اساسی تعلیمات اور اس کے بنیادی اُصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُمت مسلمہ ایک اُمت ہے۔ اس کی حفاظت و عہد کا ذمہ ایک ہے۔پوری اُمت جسد ِواحد کی طرح ہے۔ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا کہ
((ليس المؤمنُ الذي يشبعُ وجارُه جائِعٌ)) [الأدب المفرد للبخاري:112]
’’وہ مؤمن ہی نہیں جس نے خود تو سیر ہوکر رات گزاری جبکہ اس کا ہمسایہ بھوکا رہا‘‘
اس اُمت کی ثروت،اثاثہ جات اور سرمایہ ان کے فاسق وظالم حکمرانوں کی بجائے تمام مسلمانوں کی ملکیت ہوتے ہیں ، یعنی اُمت ِمسلمہ کی دولت اور سرمایہ جات کسی خاص طبقے کے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے ہیں ۔ لیکن آج مغربی سامراج نے ہمیں 57 ملکوں کی صورت میں تقسیم کردیا ہے اور ان ممالک کے حکمران مسلمانوں کے ثروت و سرمایہ کو لوٹنے اور غربت عام کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں ۔ دیکھئے کہ اسلام کے قرونِ اولیٰ کی نسبت آج اُمت کا حال کیا ہوچکا ہے!!
اس سلسلے میں عہد فاروقی ؓسے ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل ہمارے سامنے ہے۔ جب عراق کی فتح کے بعد مال و غنائم کی کثرت ہوئی توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین کی وسعت و آسودگی کو دیکھتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرکےمشورہ لیا کہ میرے خیال میں عراق کے اطراف کی زمین مسلمانوں کے بیت المال کے لیے چھوڑ دینی چاہیے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے بھی کچھ سرمایہ بچ جائے۔ باوجودیکہ بعض صحابہ نے اس سے اختلاف کیا اور یہ رائے دی کہ اس زمین کو مجاہدین میں تقسیم کردینا چاہیے، اور ان کے پاس اس بارے میں کتاب و سنت سے دلائل بھی تھے، تاہم