کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 72
کشتی میں سوار ہوکر حماد اپنے ذاتی جزیرے تک جاتا ہے جہاں اس کا عظیم الشان محل ہے اور دو سو خدام ہر وقت اس کی خدمت کو موجود ہوتے ہیں ۔ پھر حماد کا دل چاہے کہ وہ اپنے اہل وعیال سمیت صحرا کی سیر کو نکلے تو اس کے لیے بھی ایک علیحدہ انتظام کرلیاگیا ہے۔ ایک تو حماد نے ایک بڑے سے ٹرک میں دو منزلہ متحرک گھر بنوایا ہے، جس میں دو تین خواب گاہیں ، ایک مطبخ، بیت الخلا، صحن او رہیلی کاپٹر کے اُترنے کی جگہ بھی موجود ہے۔ پھر یہ سوچ کر کہ میرا خاندان تو بڑا ہے او ریہ کمرے ناکافی.... حماد نے ایک اور اہتمام کرنےکا فیصلہ کیا۔ اُس نے کرۂارض کی طرز پرایک گول 50 ٹن وزنی گیند نما گھر بنوایا ہے جسے سات لاکھ ڈالر (تقریباً پانچ کروڑ روپے) مالیت کاحامل 20 ٹن وزنی ٹرک کھینچتا ہے۔ اس گیند نما گھر کے نیچے جو پہیے لگوائے گئے، ان میں سے ہر ایک کی قیمت 17 ہزار ڈالر (بارہ لاکھ روپے) ہے۔ اس گیند کے اندر موجود چار منزلہ گھر میں 9 عدد خواب گاہیں ہیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک بیت الخلا او رحمام ہے۔ جبکہ مہمانوں کاکمرہ ان کے علاوہ ہے۔ اس گیند میں 24 ٹن پانی اُٹھانے کی ٹینکی بھی موجود ہے۔ یہ متحرک گھر دنیا میں اپنی طرز کا واحد عجوبہ ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کے حکام اوران کے چیلوں کا یہ حال ہے اور دوسری طرف تحقیقی اداروں کی رپورٹ کے مطابق اکثر اسلامی ممالک کے مسلمان خط ِغربت سے بھی نیچے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ بلا شبہ یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور سینہ پارہ پارہ ہوجاتا ہے کہ اَموال کی اس غیر منصفانہ تقسیم نے اُمت کو کس حال تک پہنچا دیا ہے! بلادِ اسلامیہ میں امیر اور غریب ممالک کی تفریق اسی طرح ہماری کوتاہیوں اور سامراج کی کوششوں کی بدولت خود بلادِ اسلامیہ میں بھی دولت مند اور غریب و پسماندہ ممالک کی تفریق پیدا ہوچکی ہے۔ بعض اسلامی ممالک مثلاً بنگلہ دیش،افغانستان اور افریقہ کے بعض مسلم ممالک میں فی کس سالانہ آمدنی اوسطاً 100 ڈالر یعنی یومیہ ایک ڈالر کا چوتھائی حصہ ہے جبکہ دوسری جانب خلیجی ممالک میں عام فرد کی اوسط آمدنی بیسیوں ہزار ڈالر سالانہ ہے ۔ حتیٰ کہ کویت و قطر جیسے بعض ممالک میں عام فرد کی مالی خوشحالی کی سطح دنیاے کفر کے مقابلے میں بھی نہایت اعلیٰ ہے۔