کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 69
کےاقتصادی معاملات کو یہاں کا حاکم ’مکتوم خاندان‘ اپنے ذاتی کاروبار کے طور پر چلاتا ہے۔ حالانکہ یہ اسلام اور اہل اسلام کی سرزمین ہے جس کے شرعی طورپر یہ حکمران محض مفاد اسلامیہ کے تحفظ اور نفاذ اسلام کے لئے نگران سے زیادہ کچھ نہیں ۔ جبکہ اس کے برعکس دبئی بطورِ ’دبئی کارپوریشن لمیٹڈ‘ (Dubai Inc.) کام کرتا ہے۔ یہاں کا سربراہ محمد بن راشد المکتوم دبئی کوسرمایہ کاروں اور سیاحوں کی جنت بنانے او راپنی دولت بڑھانے کی خواہش میں کروڑوں اربوں ڈالر کی لاگت سے نت نئے تعمیراتی منصوبے شروع کرتا رہتا ہے۔
دبئی میں محمد بن راشد کی خاص فرمائش پر تعمیر کردہ مشہور ’برج العرب‘ ہوٹل پایا جاتا ہے جودنیا کا واحد ’سیون سٹار‘ ہوٹل ہے۔ اس ہوٹل کی تعمیر سے قبل ساحل سے ذرا ہٹ کر پانی میں ایک چھوٹا سا مصنوعی جزیرہ بنایا گیا او راس جزیرے پر ہوٹل کی عمارت کھڑی کی گئی۔ اس ہوٹل میں کوئی کمرہ کرایہ پر لینا ممکن نہیں ، کیونکہ یہاں اکیلے کمرے کا تصور ہی نہیں ہے۔ اس میں تو دو دو منزلہ رہائش گاہیں ہی دستیاب ہیں جن میں ہر قسم کی عیاشی کا سامان میسر ہے۔ ان میں سے سستی ترین رہائش گاہ کا کرایہ بھی آج سے دو سال قبل 4،5 ہزار ڈالر (یعنی تین سے 4 لاکھ روپے) یومیہ سے شروع ہوتا تھا، جبکہ خصوصی رہائش گاہوں کا کرایہ 13 ہزار ڈالر (یعنی 9 لاکھ روپے سے زائد) یومیہ تھا۔ اس ہوٹل میں آنے والوں کی خدمت کے لیے سربراہِ دبئی کی خاص فرمائش پر 16 رولز رائس گاڑیاں کمپنی سے خصوصی طور پر تیار کروائی گئیں جن سب کا رنگ باہر سے سفید ہے اور گاڑیوں کے اندر ہر شے نیلے رنگ کی ہے۔ یادرہے کہ یہ ہوٹل مکتوم خاندان کی ذاتی ملکیت ہے۔
پھر سربراہ دبئی کو ایک نیا شوق سوجھا۔ اس نےدبئی میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ چند سال قبل’برج دبئی‘ پر کام شروع کیا گیا جو ایک سو ساٹھ منزلوں پر مشتمل 700 میٹر بلند عمارت ہے اور جس کی تعمیر پر دوسو کھرب ڈالر (یعنی 14 ہزار کھرب روپے) سے زائد لاگت آئی ہے۔ نیز اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر اس انداز سے کی گئی ہے کہ ضرورت پڑنے پر اس میں مزید منزلوں کا اضافہ کیاجاسکے۔ تاکہ اگر کوئی دوسرا ملک اس سے اونچی عمارت بنالے تو پھر بھی اسے پیچھے چھوڑنا ممکن ہو۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دوسرے عرب حکمرانوں سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ دبئی کو آگے نکلتا دیکھیں ،