کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 67
میں ہی برآمد کردیئے جاتے ہیں ۔ نہ ہی اُنہیں اپنے یہاں صنعت میں لگایا جاتاہے اورنہ اپنے علاقوں کے لیے ان سے کوئی خاص فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔بیشتر مسلم ممالک مقامی ماہرین کو استعمال کرتے ہوئے یہ معدنیات اپنے یہاں ہی صنعتی استعمال میں لاسکتے ہیں ، لیکن ہماری گمراہ حکومتوں کو سوائے ان قیمتی معدنیات کو کانوں سے نکالنے اور برآمد کردینے اورکچھ نہیں سوجھتا۔ چوری اور عیاری کی انہی تاریخ ساز وارداتوں کانتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو قدرتی وسائل اور عظیم نعمتیں عطا کی تھیں ، وہ ان سے چھنتی چلی جارہی ہیں ۔ آج مسلم سرزمینوں کی صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ وہاں حکومت کے حصول، وسائل کی لوٹ مار اور مغربی آقاؤں کو ان وسائل کی حوالگی کے لیے ہر دم ایک سیاسی و عسکری کشمکش جاری رہتی ہے!جس کے نتیجے میں آنے والی ہر حکومت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ اُمت کے وسائل لوٹنے اور اِن وسائل کو کفار کےحوالے کرنے میں سابقہ حکومتوں سے زیادہ مخلص او رچاق و چوبند ہے!! پھر آخر یہی کشمکش مغربی اقوام کے حملوں ،حرص و ہوس پرمبنی خونی جنگوں ، ہلاکتوں ،خوف، بھوک اور افلاس کا سبب بنتی ہے۔ سرزمین حرمین پر امریکی اقدام اس ظلم کی انتہا یوں ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے ہی بعض حکمران مغرب کی آشیر باد سے آپس میں لشکر کشی کا آغاز کرکے، مغربی اقوام کو اپنے ہاں براجمان ہونے کی دعوت دیتے ہیں ۔ اور امریکہ ہماری ہی سرزمینوں ، بالخصوص اسلام کے آنگن اور اُمت کے قلب’جزیرہ عرب‘ پرچڑھائی کرتا ہے اورحملہ آور لشکر کو ’امن فوج‘ اورحملے کے مقصد کو ’عسکری امداد‘ کا نام دیتا ہے۔ دورِ حاضر کا استعمار اپنے صلیبی عزائم کو ان خوشنما ناموں میں ملفوف کرکے ہم پر حملہ کرتا ہے اور پھر اس مکروہ مہم کے مصارف واخراجات بھی ہماری ہی حکومتوں سے وصول کرتا ہے۔ چنانچہ امریکہ نے عاصفة الصحراء (آپریشن ڈیزرٹ سٹارم) کے اخراجات یعنی پانچ کڑوڑ ساٹھ لاکھ ڈالر بھی سعودی حکومت پر تھوپے۔ اس خطیر رقم کی ادائیگی کے سبب سعودی بجٹ خسارے میں پڑ گیا اور سعودی حکومت سُودی قرضے لینے پر مجبور ہوگئی۔جی ہاں ! دنیا میں پٹرول کا سب سےبڑاذخیرہ رکھنے والاملک مقروض