کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 66
بھی انتہائی ارزاں قیمت ، مثلاً 3 ڈالر فی بیرل تک میں بیچ دیتے ہیں ۔ یوں نصف ملین بیرل پٹرول سے محض ڈیڑھ ملین ڈالر کی آمدنی حاصل ہوتی ہے جو اس حکمران طبقے کی آوارگی، عیاشی اورجوئے بازیوں کے چند ہفتوں کے اخراجات ہی کو کفایت کرپاتی ہے۔ چوری کا چوتھا مرحلہ: بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، آگے چوری کا چوتھا مرحلہ آتا ہے ۔ اس مرحلے میں اس حاصل شدہ آمدنی کو ہماری خائن حکومتیں ہمارے بینک کھاتوں کے نام پر صلیبی بینکوں میں منتقل کردیتی ہیں ۔ جو ہمارے لئے محض الیکٹرونک حساب و کتاب میں اعداد وشمار اور صفروں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے بعد ہمارے حکمرانوں کو بھی اس کی اجازت نہیں ہوتی کہ ان بینکوں سے اپنی ہی رقم ایک مقرر شدہ حصے سے زائد نکلوا سکیں تاآنکہ وہ اس رقم کااکثر حصہ مغرب ہی کی صنعتی مصنوعات او رانہی کے بنائے ہوے اسلحہ کو خریدنے میں لگا دیں ۔ پھر یہ سامانِ حرب بھی اربابِ مغرب اپنی من پسند قیمت پر بیچتے ہیں ۔ اس نکتے کو واضح کرنےکے لیے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں ۔ کویت کے قومی اسمبلی کے ایک رکن کے امریکہ میں صرف کھانے کے اخراجات کروڑوں ڈالر تک پہنچتے تھے۔جہاں مصارفِ طعام میں 30 ڈالر تو صرف چند پتوں کی قیمت تھی جو بطورِ سلاد استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جو تھوڑا بہت حاصل ہوتا ہے ، وہ بھی ہمارے فاسق حکمران اُڑا دیتے ہیں ! اب آخر میں دیکھئے کہ ہمارے قیمتی وسائل میں سے خود ہمارے ہاتھ کیا آتا ہے۔ حقیقی آمدنی کی مضحکہ خیز حد تک قلیل نسبت اور اس کابھی بیشتر حصہ ہمارے حکمران سوئٹرز لینڈ، امریکہ و یورپی ممالک کے بنکوں میں موجود اپنے خفیہ کھاتوں میں جمع کروا دیتے ہیں ، جو حقیقت میں یہود ہی کے ادارے ہیں ۔ یوں ہمارے ’بےحد و حساب وسائل‘ سے حاصل شدہ ’انتہائی کم آمدنی‘ ان حکمرانوں کے اپنے اخراجات اور بعض بنیادی منصوبوں کو ہی بمشکل پورا کر پاتی ہے اور عوام کے ہاتھ عملاً کچھ بھی نہیں لگتا۔ محض پٹرول ہی نہیں ، تمام معدنی وسائل چوری کئے جاتے ہیں ! جہاں تک ہمارے دیگر معدنی وسائل کا تعلق ہے تو وہ بھی ایسے ہی ہتھکنڈوں سے بھاری مقداروں میں چوری کرلئے جاتے ہیں او ربالعموم دھاتوں ، پتھروں اور خام مال کی صورت