کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 65
میں ہم اس تاریخی چوری کے اہم مراحل پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں : چوری کا پہلامرحلہ: چوری کا پہلا مرحلہ تیل نکالنے والی مغربی کمپنیوں کے ساتھ ہمارے خائن حکمرانوں اور افسران کے معاہدوں کی صورت میں شروع ہوتاہے۔ مسلمانوں کے یہ ظالم حکمران ان معاہدوں کے ذریعے 40 تا60 فیصد آمدنی اپنے ذاتی اموال میں لے جاتے ہیں جبکہ بقایا منافع ان کمپنیوں کے حصے میں آتے ہیں جبکہ بیچاری اُمت خالی ہاتھ بیٹھے تماشہ دیکھتی ہے۔ چوری کا دوسرا مرحلہ: چوری کا دوسرا مرحلہ خارج شدہ کیمیکل میں دھاندلی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ چونکہ ان تمام مراحل کی نگرانی یہ کمپنیاں خود ہی کرتی ہیں لہٰذا ان کے لیے اپنے انجینئر اور ماہرین کے ذریعے دھاندلی کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔نیز اگر کہیں نگرانی پر مامور ماہرین مقامی حکومتوں میں سے ہوں تو اُنہیں رشوت کے ذریعے خاموش کرالیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ کمپنیاں متعدد ممالک میں جعل سازی کرنے میں کامیاب رہی ہیں ۔ چوری کا تیسرا مرحلہ: اب آتا ہے چوری کا تیسرا مرحلہ، جس میں اس مواد کی حد بندی، اس کی قیمت کا تعین اور عالمی سطح پر اس کی خریدوفروخت کی جاتی ہے۔ اس مرحلے پر اس مواد کی انتہائی کم قیمت لگائی جاتی ہے (جو بذاتِ خود وسائل چوری کرنے کا ایک جدید انداز ہے)۔ سمجھنے کے لیے بس ایک مثال ہی کافی ہے کہ خود مغرب کے 26 عالمی اقتصادی تعلیمی اداروں کے مطابق ایک بیرل خام پٹرول اور اس سے نکلنے والے صنعتی مواد کی اصل تصور شدہ قیمت کم از کم 260 ڈالر فی بیرل ہونا ضروری ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اب تک پوری تاریخ میں کبھی بھی یہ قیمت 45 ڈالر سے تجاوز نہیں کرسکی۔ اکثر اوقات تو اس کی قیمت 20 ڈالر کے ہی ارد گرد رہی حتیٰ کہ بسا اوقات یہ قیمت 10 ڈالر تک بھی جاگری ہے!!! یہ سارا مکروہ کھیل ہمارے ممالک پر قابض صلیبی سرمایہ دار اور عالمی تجارتی منڈی کے یہودی ساہوکار کھیلتے ہیں ۔ ہمارے قیمتی سرمایہ اور ہمارے ممالک کی کرنسیوں کی قدر یہی گھٹاتے بڑھاتے ہیں ۔ لیکن اس سے بھی المناک حادثہ یہ ہے کہ ہم پر قابض چور حکمران ، ان کے حکام و خدام، ان کے بھائی بیٹے اور معاونین و مصاحبین چند ٹکوں اورمحدود ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر اس قیمتی دولت کو عالمی سطح پر مقرر کردہ حصص کے مقابلے میں