کتاب: محدث شمارہ 346 - صفحہ 63
حامل ہیں ۔ اسی طرح جنوبی سوڈان، افریقہ کی چوٹیوں اور مصر سے الجزائر تک پھیلے ہوئے طویل علاقے میں بھی پٹرول کے متعدد ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی اہمیت بھی محتاجِ بیان نہیں ۔ یہ تمام علاقے جدید دنیا میں دولت کے اساسی ذخائر ہیں او ریہی وہ ذخائر ہیں جو ہر میدان میں ،چاہے سیاسی ہو، اقتصادی یا تزویراتی قوت و طاقت کا سرچشمہ ہیں ۔ پھر انہی کے ساتھ عالم اسلام کا وہ حصہ بھی واقع ہے جو مشرق میں افغانستان، پاکستان، مشرقی فلپائن سے لے کر بحراطلس کے کنارے تک اور مغرب کی سمت مغربی ساحلوں سے ملتا ہوا موریطانیا اور مغرب سنیگال تک پھیلا ہوا ہے جبکہ شمال میں یہی علاقہ وسطی ایشیا قوقاز، بلقان اور شمالی افریقہ تک اور جنوب میں جنوبی ایشیا ، انڈونیشیا اور وسطی افریقہ تک کے وسیع وعریض علاقے پر محیط ہے۔ ان تمام علاقوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام مختلف قدرتی معدنیات کی عظیم دولت سے مالا مال ہے جو تزویراتی اعتبار سے بے پناہ اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان ممالک میں سے اکثر نہ صرف اہم صنعتی معدنیات کا ذخیرہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ سامانِ خوردونوش اور زرعی پیداوار میں بھی متموّل ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ اسلامی ممالک اہم ترین بحری، برّی اورفضائی آمدورفت کے راستوں پر وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دو چار اہم ترین مختصر بحری راستے؛ (1) ہرمز (2)بابِِ مندب (3) نہر سویز اور (4) جبل طارق؛ جن پر عالمی معیشت کا کلی انحصار ہے، اُمت مسلمہ ہی کے پاس ہیں ۔ یہ چاروں مختصر بحری راستے ایسی فضائی شکل بناتے ہیں جو دنیا کے نظامِ مواصلات کو چہار اطراف سے باہم ملائے ہوئے ہے۔ لیکن انتہائی تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان تمام انعامات و احسانات کے باوجود مسلمانوں کے بیشتر ممالک بھوک و افلاس او رجہالت و پسماندگی کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہیں ۔ پٹرول کی دولت سے مالا مال ان ممالک میں سے بیشتر عالمی ادارہ ’اوپیک‘ کے ممبر بھی ہیں ، تاہم اس کے باوجود ان ممالک کی اکثریت خط ِغربت سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ مسلمانوں کے وسائل کی بہتات کا اندازہ کرنے کے لیے یہ ایک مثال ہی کافی ہے کہ یورپ کی 65 فیصد قدرتی گیس کی کھپت الجزائر سے آتی ہے۔ یہ بھی جانتے چلئے کہ